Inquilab Logo

میراروڈ : اسکول فیس کیلئے والدین پریشان ،لاک ڈاؤن کی وجہ مالی حالت خراب ہونے سے فیس بقایا

Updated: December 18, 2021, 12:55 AM IST | sajid Shaikh | Mumbai

اسکول کے متفرق اخراجات اور بیاضیں خریدنے کیلئے اضافی رقم کے مطالبے سے بھی ناراضگی۔سماجی کارکنوں نے اس معاملے میں سختی کو غلط قرار دیا۔اسکول انتظامیہ نے کئی الزامات کوبے بنیاد قرار دیا اور اپنی مجبوریاں بھی بتائیں

Miraroad: Parents worried about school fees
میراروڈ : اسکول فیس کیلئے والدین پریشان

 یہاں کے بہت سے والدین اور سرپرست اپنے بچوں کی اسکول کی فیس کے معاملے میں  پریشان ہیں۔ گزشتہ ڈیڑھ سال سے کورونا وائرس  اورلاک ڈاؤن کی   پابندیوں کے باعث ان کی مالی حالت خراب ہوچکی ہے۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں،رکشا ڈرائیوروں  اور گھریلو کام کرنے والی خواتین کو مالی تنگی کا سامنا ہے ۔ لائٹ بل بقایا ہیں،کرایہ داروں کا مکان کا کرایہ کئی مہینوں کا باقی ہے۔ بچوں کی اسکول فیس باقی ہے۔تنگ دستی اور بیروزگاری کی وجہ سے بعض لوگوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آگئی ہے۔ ایسے حالات میں اسکول انتظامیہ نے بقایا اسکول فیس کی وصولی کیلئے سختی کرنا شروع کر دیا ہے۔    اس تعلق سے نیانگر کے بانیگر اسکول کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا۔ اس کے علاوہ دیگر اسکولوں کی بھی والدین نے شکایت کی تھی کہ  وہاں کے بچوں کو لوٹا دیا گیاتھا۔ والدین اس بات پر بھی ناراض ہیں کہ کہ متفرق اخراجات (miscellaneous expenses) کے نام پر ان سے کافی بڑی رقم وصول کی جارہی ہے ۔ ان حالات کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی سلسلہ منقطع ہونے کا اندیشہ ہے اور ان کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
          پریشان حال والدین  اور سرپرستوں  نے اپنی پریشانیوں کا ذکر کیا اور مالی تنگی کے باعث اسکول فیس کے بقایا ہونے کی بات کہی ۔ امتیاز حسین میر نامی رکشا ڈرائیور نے بتایا کہ لاک ڈاؤن میں کئی آٹو رکشا بند ہونے کے باعث ان کی آمدنی بند ہو گئی تھی ۔  اُن کے بیٹا  کا ایک گردہ خراب ہونے کی وجہ سے نکال دیا گیا ہے اور دوسرے گردہ کا بھی مسلسل علاج چل  رہا ہے جس کا کافی بڑا خرچ آتا ہے اس وجہ سے وہ بچوں کی اسکول فیس بھرنے سے قاصر ہیں ۔ انہوں نےیہ بھی  بتایا کہ ان کی بیٹی کا بارہویں جماعت میں۸۸؍ فیصد مارکس  آنے کے باوجود کالج فیس بھرنے کیلئے پیسے نہیں تھے جس کی وجہ سے ڈگری کالج میں داخلہ نہیں کرا سکا اور اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا مگر بیٹا جو ششم جماعت کا طالب علم ہے، اس کی اسکول فیس بھرنا باقی ہے ۔ نیا نگر میں رہنے والی شازیہ خالد  نے بتایا کہ تین برس قبل اُن کے شوہر نے علیحدگی اختیار کرلی اور ان کو تنہا چھوڑ کر دوسری شادی کر لی جب سے وہ میراروڈ میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتی ہیں جبکہ ان کی والدہ غریب ہے اور صرف ایک بھائی ہے جو کہ ایک چھوٹی سی نوکری کرتا ہے جس کی وجہ سے گھر کا چولہا کسی طرح جلتا ہے مگر ان کے بچوں کی اسکول فیس نہیں بھر پا رہے ہیں۔فیس بقایا ہونے کی وجہ سے ان کے ۳؍ بچے گھر میں بیٹھے ہیں ۔شائستہ رضوان   نے بتایا کہ ان کا بچہ  ایک نجی انگریزی میڈیم اسکول کی  دہم جماعت میں زیرتعلیم ہے، فیس باقی ہونے کی وجہ سے اس کو کلاس میں نہیں بیٹھنے دیا جارہا تھا۔ انہوں نے اپنے سارے رشتے داروں سے قرض مانگ کر کسی طرح ۳؍ ہزار  روپے جمع کئے اور اسکول میں جمع کئے تو  بچے کو کلاس میں لیا گیا   مگراسے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ  ایس ایس سی امتحان کیلئے بورڈ کا اس کا فارم  نہیں بھرا جا رہا ہے   ۔ نیا نگر کی حمیرہ شیخ  نے بتایا کہ  لاک ڈاؤن  سے  ان کے شوہر کا  رکشا بند  رہا  اور وہ مالی پریشانی کا شکار ہو گئے۔ اُن کی نند اور نندوئی دونوں کا انتقال ہوگیا تو ان کی اکلوتی یتیم بچی کی پرورش وہ کرنے لگی تھیں مگر مالی تنگی کے پیشِ نظر اُس کا کالج سے نام نکلوا لیا۔  اُن کی بڑی بیٹی جو سوم جماعت میں زیرِ تعلیم تھی، فیس نہ بھرنے کی وجہ سے اس کا بھی تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا   ۔  پوجا نگر میں رہنے والی شمع سلیم شیخ نے بتایا کہ اُن کے شوہر فٹ پاتھ پر کاروبارکرتے ہیں اور وہ لوگ بھی مالی تنگی کا شکار ہیں۔اسکول میں زیرتعلیم ان کے ۲؍ بچے کی فیس کیلئے انتظامیہ بار بار تقاضا کر رہا ہے جبکہ ان کے پاس فیس بھرنے کیلئے رقم نہیں ہے۔علی خان نامی ایک شخص نے بتایا کہ فیس کے علاوہ متفرق اخراجات میں بیاضیں بھی شامل ہیں اور جو بہت مہنگی  ہیں۔ ان کے بچے پرانی بیاض  کے  اوراق میں سبق لکھ سکتے ہیں پھر اتنی مہنگی بیاض وہ کیوں خریدیں ۔ شمیم چودھری  نے بھی فیس کے تعلق سے شکایت کی۔ محمد خالد نے بتایا کہ اصل لڑائی متفرق اخراجات (miscellaneous expenses)  کی ہے جب گزشتہ سال اسکول بند تھا تو متفرق اخراجات کے مد  کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے۔ساگر منتھن بلڈنگ میں رہنے والی یاسمین ،گیتا نگر کی فاطمہ بی بی،  محمد کڑیوال ، سماجی کارکن نشاط ا  وررخسانہ ملک نے بھی اسی طرح کی شکایتیں کی ہیں۔   والدین و سرپرستوں کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے سماجی کارکنان والدین و سرپرستوں کی حمایت میں آگے آئے ہیں۔  مقامی سماجی کارکن اور مشن امپوسیبل کے صدر بھگوان کوشک نے اسکول انتظامیہ کے رویہ پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی نامناسب رویہ ہے اور سراسر ناانصافی ہے کیونکہ یہ حکومت کے لازمی تعلیم کے قانون کے خلاف ہے جس کے تحت ہر بچے کو تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل ہے ۔  غیر سرکاری  تنظیم موومنٹ فار پیس اینڈ جسٹس ( ایم پی جے ) کے میراروڈ کے کوآرڈینیٹر معز پٹیل نے کہا کہ   اسکول والوں کی یہ سراسر زیادتی ہے۔
 مذکورہ بالا شکایتیں کرنےوالے والدین اور سرپرستوں کے  بچے میرا روڈ کے مختلف اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔
     اپنے اسکول کے تعلق سے    والدین و سرپرستوں کی شکایتوں پرنیانگر کے بانیگر انگلش اسکول کے سیکنڈری سیکشن کے پرنسپل غضنفر علی رنگریز نے اس نمائندے کے ملاقات کرنے  پر بہت سی شکایات کو یکسر مسترد کردیا اور چند شکایات پر صفائی  بھی دی ۔ موجودہ صورتحال کیلئے انہوں نے والدین  اور  سرپرستوں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔  انہوں نے بتایا کہ ہم گزشتہ ۶؍ماہ سے فیس سے متعلق طلبہ کو آگاہ کر رہے ہیں،  ہم کتنی رعایت دیں۔  ہمیں اسکول بھی چلانا ہے ،  اسٹاف کو تنخواہیں بھی دینا ہے،  دیگر اخراجات بھی پورے کرنے ہیں ۔  انہوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ ہم نے اس لئے طلبہ کو کلاس سے نکالاتھا تاکہ والدین ہم سے رابطہ قائم کریں ۔ ہمیں محکمہ تعلیم کو روزانہ طلبہ کی حاضری کا ریکارڈ دینا پڑتا ہے مگر طلبہ پابندی سے آن لائن کلاس اٹینڈ نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم نے بہت حد تک اسکول فیس میں رعایت دی ہے  ،  متفرق اخراجات مانگنےکے الزام کو مسترد کرتے ہوئے   انہوں نے کہا کہ ہم  نے گزشتہ سال کی miscellaneous  فیس معاف کر دی تھی اور صرف رواں سال کی متفرق فیس مانگ رہے ہیں۔ دیگر کئی الزامات کو بھی انہوں نے مسترد کردیا اور والدین کی لاپروائی کا بھی ذکر کیا۔

mira road Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK