ڈاکٹر شمشیر ویالیل نے احمد آباد طیارہ حادثہ میں جان گنوانے والے ایم بی بی ایس کے ۴؍ طلبا کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئےاس امداد کا اعلان کیا اورکہا کہ ’’ حادثے کے مناظر دیکھ کر دل دہل گیا، کیونکہ میں بھی ایسے ہی ہاسٹلوں میں رہا ہوں۔‘‘
EPAPER
Updated: June 17, 2025, 1:03 PM IST | Nandini Sarkar | Dubai
ڈاکٹر شمشیر ویالیل نے احمد آباد طیارہ حادثہ میں جان گنوانے والے ایم بی بی ایس کے ۴؍ طلبا کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئےاس امداد کا اعلان کیا اورکہا کہ ’’ حادثے کے مناظر دیکھ کر دل دہل گیا، کیونکہ میں بھی ایسے ہی ہاسٹلوں میں رہا ہوں۔‘‘
دبئی میں مقیم ایک ڈاکٹر اور مخیر شخصیت نے احمد آباد طیارہ حادثے میں ہلاک اورزخمی ہونے والے میڈیکل کے طلباء اور ڈاکٹروں کے خاندانوں کی مدد کے لئے ۲۵؍ لاکھ درہم کی مالی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ برجیل ہولڈنگز کے بانی اور وی پی ایس ہیلتھ کے مینیجنگ ڈائریکٹر، ڈاکٹر شمشیر ویالیل نے کہا کہ ’’یہ فیصلہ میرے ذاتی تجربات اور میڈیکل برادری سے ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا ہے، کیونکہ میں خود بھی ماضی میں ایسے ہی میڈیکل ہاسٹلز میں رہ چکاہوں۔ ‘‘یہ افسوسناک سانحہ۱۲؍ جون کو اس وقت پیش آیا جب ایک بوئنگ۷۸۷؍ طیارہ احمد آباد کے بی جے میڈیکل کالج کے ہاسٹل اور میس بلاکس سے ٹکرا گیا۔ اس حادثے میں چار میڈیکل طلباء اور ڈاکٹروں کے کئی اہل خانہ فوت ہو گئے، جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے۔
جس وقت یہ حادثہ پیش آیا اس وقت طلبہ ’اتلیم ہاسٹل کمپلیکس‘ میں دوپہر کا کھانا کھارہے تھے، طیارے کے ٹکرانے سے طلبہ کی رہائش گاہیں اور ڈائننگ ایریا ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ حادثے کے بعد بچ جانے والوں نے بتایا کہ کس طرح کتابیں، ذاتی سامان اور کھانے کی پلیٹیں ملبے میں بکھری پڑی تھیں۔ متوفی طلبہ میں ایم بی بی ایس کرنے والے جئے پرکاش چودھری (باڑمیر، راجستھان)، مانو بھادو (شری گنگا نگر، راجستھان)، آرین راجپوت (گوالیار، مدھیہ پردیش) اور راکیش دیورا (بھاؤنگر، گجرات) یہ سبھی اپنے کورس کے ابتدائی مرحلے میں تھے۔
اس کے علاوہ کیمپس میں مقیم ڈاکٹروں کے پانچ اہل خانہ بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ابوظہبی سے مالی امداد کا اعلان کرتے ہوئے، ڈاکٹر شمشیر ویالیل نے کہا کہ حادثے کے بعد کے مناظر دیکھ کر وہ بے حد غمزدہ ہو گئے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بھی منگلور کے کستوربا میڈیکل کالج اور چنئی کے شری رام چندر میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران ایسے ہی ہاسٹلز میں وقت گزارا تھا، اور یہ مناظر ان کی یادوں کو جھنجھوڑ گئے۔ انہوں نے کہا:’’میں نے جب میس اور ہاسٹل کے مناظر دیکھے، تو دل کانپ گیا۔ مجھے اپنے طالبعلمی کے دن یاد آ گئے — وہی کوریڈورز، وہی بیڈز، امتحانات کا دباؤ، گھر والوں کے فون کا انتظار... کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ ایک کمرشیل طیارہ اس زندگی میں یوں داخل ہو جائے گا۔ ان طلبہ نے دن کا آغاز لیکچرز، اسائنمنٹس اور مریضوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کیا تھا، مگر ان کی زندگیاں ایسے ختم ہو گئیں جیسے کسی نے خواب توڑ دیے ہوں۔ یہ منظر بہت قریب سے لگا۔ حد سے زیادہ قریب۔ ‘‘
ڈاکٹر ویالیل کی جانب سے اعلان کردہ امدادی پیکیج کے تحت:ہلاک ہونے والے چار طلبہ کے اہل خانہ کو فی کس۴؍لاکھ ۲۶؍ہزاردرہم (تقریباً ایک کروڑ روپے) دیے جائیں گے، پانچ شدید زخمی طلبہ کو فی کس ۸۵؍ہزار درہم، اور اُن ڈاکٹروں کے خاندانوں کو بھی ۸۵؍ ہزاردرہم دیے جائیں گے جن کے عزیز اس حادثے میں ہلاک ہوئے۔ یہ مالی امداد بی جے میڈیکل کالج کی جونیئر ڈاکٹرز اسوسی ایشن کے اشتراک سے تقسیم کی جائے گی تاکہ فوری مدد متاثرین تک پہنچ سکے۔
چاروں طلباجن کی موت طیارےکے ہاسٹل سے ٹکرانے سے ہوئی۔ تصویر: آئی این این
ڈاکٹر ویالیل نے مزید کہا:’’یہ نوجوان میرے اپنے شعبے کے ساتھی تھے۔ میں جانتا ہوں وہ زندگی کیسی ہوتی ہے کلینکل امتحانات کی تیاری، میس ہال میں اکٹھے کھانے، اور تھکا دینے والے دن کے بعد ہاسٹل واپس آنا۔ یہ معمولات صرف ڈاکٹرز نہیں بناتے، یہ کردار بھی بناتے ہیں۔ اور اس زندگی کو یوں چھین لینا، اتنی بے رحمی سے، دل توڑ دینے والا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ یہ امداد صرف مالی مدد نہیں بلکہ ایک علامتی پیغام بھی ہے یہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ طبی برادری، نسلوں اور سرحدوں سے بالاتر ہو کر، ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی ہے۔ جو کچھ ہوا، اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ یہ طلبہ دوسروں کی خدمت کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔ ان کی یادیں محض خبروں کی شہ سرخیوں میں گم نہیں ہونی چاہئیں۔ ہمیں اُن خوابوں کو آگے لے جانا ہے، جو وہ پورے نہ کر سکے۔ یہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ ‘‘
جونیئر ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، جو کہ ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن کا حصہ ہے اور دنیا بھر کے جونیئر ڈاکٹروں کی نمائندہ ہے، متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے حکومت سے رابطے میں ہے، اور ڈاکٹر ویالیل کی ٹیم کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنا رہی ہے کہ امداد بروقت اور شفاف طریقے سے ان لوگوں تک پہنچے جنہیں اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ (بشکریہ: خلیج ٹائمز)