مودی سرکار کیخلاف ٹویٹر عدالت سے رجوع، ٹویٹس ہٹانے کے حکم کو چیلنج

Updated: July 07, 2022, 9:35 AM IST | new Delhi

 وجہ واضح کئے بغیر ٹویٹس بلاک کرنے کےمرکزی حکومت کے احکامات کو سوشل میڈیا کمپنی نے صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی بتایا، شفافیت کا مطالبہ کیا

locking an account or tweet has also raised questions about Twitter`s neutrality. The photo below shows a protest against him when he blocked Rahul Gandhi`s account. (File photo)
اکاؤنٹ یا ٹویٹ بلاک کرنے کی وجہ سے ٹویٹر کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھنے لگے ہیں۔ زیر نظر تصویر اس کے خلاف اُس وقت کے احتجاج کی ہے جب اس نے راہل گاندھی کا اکاؤنٹ بلاک کیاتھا۔ (فائل فوٹو)

: سوشل میڈیا پر کنٹرول کی مودی سرکار کی کوششوں کو چیلنج کرتے ہوئے ٹویٹر نے کرناٹک ہائی کورٹ میں  اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیاہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم  نے اس مقدمہ میں ٹویٹس اور اکاؤنٹس بلاک کرنے کے مودی حکومت کے احکامات کو چیلنج کیا ہے اورانہیں صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی قراردیاہے۔ 
 واضح رہے کہ حال ہی میں مودی حکومت نے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی  کے نئے ضوابط وضع کئے  ہیں جن کی رو سے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر اس کا اثر و رسوخ  بڑھ گیاہے۔ حکومت اب آئی ٹی ایکٹ کے سیکشن ۶۹؍اے کے تحت ٹویٹر کو کسی بھی ٹویٹ کو ہٹانے یا بلاک کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے بھیجے گئے ایک نوٹس میں ٹویٹر کو آگاہ کیاہے کہ  ۶؍ اور ۹؍ جون کو  منسٹری آف الیکٹرانکس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی   نے  ٹویٹ ہٹانے کے ۲؍ احکامات جاری کئے تھے جن پر اب تک عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ اس کےساتھ ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر ٹویٹر اسی طرح احکامات کی خلاف ورزی کرتا رہتا ہے تو اسے آئی ٹی کے نئے قوانین کے تحت  ’’درمیان کی کڑی‘‘(انٹر میڈیری) کی حیثیت سے قانون سے جو استثنیٰ   حاصل ہے وہ ہٹا دیا جائےگا۔  ٹویٹر یا کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو  ’’درمیان کی کڑی‘‘ (انٹر میڈیری)   کے طور پر آئی ٹی ضوابط کے تحت قانونی استثنیٰ  حاصل ہے۔ یعنی مذکورہ پلیٹ فارم پر پوسٹ ہونے والے پیغامات کیلئے وہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ وہ  محض درمیان کی کڑی کے طو ر پر کام کرتا ہے۔ 
 ۶؍ اور ۹؍ جون کے احکامات کی خلا ف ورزی کے تعلق سے اس سے قبل آئی ٹی کی مرکزی وزارت نے ٹویٹر کو جو نوٹس جاری کیا تھا اس میں اسے ۴؍ جون تک حکم کی تعمیل کا موقع دیا گیاتھا۔  پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق اگر وہ اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اسے ’’درمیان کی کڑی‘‘ کی حیثیت سے حاصل تحفظ سے محروم کر دیا جائےگا۔ ذرائع کے حوالے سے ملنے والی اطلاعات  کے مطابق  ٹویٹر کو اس ضمن میں ۲۷؍ جون کو حتمی نوٹس ملی تھی جس پر اس نے عمل درآمد کرلیا ہے مگر بار بار ٹویٹ اور اکاؤنٹ بلا کرنے کے احکامات کے خلاف اس نے اب کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔  واضح رہے کہ ٹویٹ  یا اکاؤنٹ بلاک کرنے کی وجہ سے ٹویٹر کو عوامی ناراضگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اوراس کی غیر جانبداری پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ 
 ٹویٹر کی جانب سے کرناٹک ہائی کورٹ میں داخل کی گئی پٹیشن  کے تعلق سے سب سے پہلے خبر بین الاقوامی خبر رساں  ایجنسی رائٹرز نے جاری کی ہے۔ اس سلسلے میں بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں ٹویٹر کی پٹیشن کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس میں اس بات پر اعتراض کیاگیاہے کہ آئی ٹی کے نئے قانون کے سیکشن ۶۹؍ اے کے تحت ٹویٹ ہٹانے کا حکم تو جاری کردیا جاتا ہے مگر اس کی وجہ بیان نہیں کی جاتی۔ ٹویٹر نے اسے صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی قراردیا ہےا وراس نے اس معاملے میں  شفافیت  برتنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ٹویٹر نے اس بات پر اعتراض  کیا ہے کہ مشمولات ہٹاتے وقت صرف یہ لکھنا ہے کہ یہ سیکشن  ۶۹؍ اے کے تحت ہٹائی جارہی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔  اس نے اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ میں  زیر سماعت ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ مقدمہ میں خوف انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت کہہ چکی ہے کہ کسی مواد کا کوئی حصہ غیر قانونی پایا جائے تو صرف اس حصے کو ہٹانے کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ 
 واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ٹویٹر اور مودی سرکار کے درمیان ٹکراؤ کی نوبت آئی ہے۔ ۲۶؍ جون کو اس نے ایک فہرست پیش کرکے بتایاتھا کہ ۲۰۲۱ء میں  ٹویٹر نے مرکزی حکومت کی ہدایت پر ۸۰؍ ٹویٹر اکاؤنٹس بلاک کیا۔ مودی سرکار نے ٹویٹر سے جن  متعدد اکاؤنٹس کو بلا کرنے کیلئے کہا ان میں  حقوق  کیلئے  کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کے ٹویٹ اوران کے اکاؤنٹ بھی شامل ہیں۔ 
 دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت آئی ٹی ایکٹ کی جس سیکشن ۶۹؍ اے کو ہتھیار بنا کرسوشل میڈیا پلیٹ فارمس سے مشمولات کو ہٹوانے کی کارروائی کررہی ہے وہ سیکشن اسے یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے اکاؤنٹس کو بلاک کرواسکتی ہے یا مشمولات کو ہٹوا سکتی ہے جو ملک کی سلامتی،عوامی نظم ونسق، ہندوستان کی سالمیت یا اس کے دفاع کیلئے خطرہ پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسے مشمولات کو بھی حکومت اس قانون کی رو سے ہٹانے کا حکم دے سکتی ہے جس کی وجہ سے کسی دوست ملک  سے ہندوستان  کے تعلقات خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ 
 اکاؤنت بلا کرنے کا حکم حکومت ہند کی جانب سے مقرر کردہ ایک مخصوص افسر جاری کرسکتاہے۔مذکورہ افسر بین وزارتی کمیٹی کا چیئر مین بھی ہوتا ہے۔اس کمیٹی میں وزارت قانون و انصاف، وزارت داخلہ، نشرواشاعت اور انڈین کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کے افسران شامل ہوتے ہیں۔  اپنی عرضی میں ٹویٹر نے کہا ہے کہ مودی حکومت اکاؤنٹ بلاک کرنے کے جوا حکامات صادر کرتی ہے وہ من مانے ہوتے ہیں  اوران اداروں  کو ا س کی اطلاع تک نہیں دی جاتی جن کا معاملہ ہے۔ ٹویٹر کا کہنا ہے کہ کئی معاملات میں حکومت کے احکامات غیر مناسب رہے ہیں۔ ٹویٹر کے اس قدم کو اہمیت کا حامل سمجھا جارہاہے۔ابھی یہ واضح  نہیں ہے کہ اس پر شنوائی کب ہوگی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK