مدنپورہ، مومن پورہ، مالونی ، کرلا، گوونڈی اور دیگر علاقوں میں ذمہ داران نے کہا: عدالت نے ابھی پولیس اورحکومت کونوٹس دیا ہے۔ ایسے میںہمیں سختی سے ڈیسیبل کے مطابق آواز رکھنے اور سوشل میڈیا پر بھی غیرضروری جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے سےباز رہنا ہے
EPAPER
Updated: July 04, 2025, 11:28 PM IST | Mumbai
مدنپورہ، مومن پورہ، مالونی ، کرلا، گوونڈی اور دیگر علاقوں میں ذمہ داران نے کہا: عدالت نے ابھی پولیس اورحکومت کونوٹس دیا ہے۔ ایسے میںہمیں سختی سے ڈیسیبل کے مطابق آواز رکھنے اور سوشل میڈیا پر بھی غیرضروری جوش وخروش کا مظاہرہ کرنے سےباز رہنا ہے
مساجد سے لاؤڈاسپیکر اتروانے کے تعلق سے ہائی کورٹ کی طرف سے ابھی کوئی راحت نہیں دی گئی ہے مگر طے شدہ ڈیسیبل کے مطابق آواز کی سطح رکھنے کے تعلق سے بے احتیاطی کی شکایات موصول ہونے لگی ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا میں الگ الگ گروپ میں عدالت کے پولیس اور حکومت سے سوال پوچھنے پر نعرے بھی بلند ہونے لگےہیں۔ اس تعلق سے نمائندہ انقلاب نے مدنپورہ، مومن پورہ، مالونی، کرلا، گوونڈی اور دیگر علاقوں میں ذمہ داران سے بات چیت کی مگر ان کےنام بالقصد نہیںلکھے جارہے ہیں۔ اس معاملے میں ذمہ دار اشخاص نے توثیق کی اور کہا کہ ابھی تو اور زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ خدانخواستہ معمولی سی بے احتیاطی بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے ۔ عدالت میں اسے فریق مخالف کی جانب سے بطور ثبوت پیش کیا جاسکتا ہے۔
کچھ ذمہ دار اشخاص کا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ جس طرح عدالت نے حکو مت سے سوال کیا ہے اور لاؤڈاسپیکر کےاستعمال کےتعلق سے اذان کو نماز کےلئے بلانے کا ایک اہم عمل گردانا ہے، وہ گویا ہم سب کی ترجمانی ہےمگر آواز کی سطح کو دن اور رات میں جس طرح سے طے کیا گیا ہے ، اگر اس پرتوجہ نہ دی گئی اور جوش میں ہم نے ہوش کھودیا تو خدانخواستہ اگلی شنوائی ۹؍ جولائی کو ہی کوئی الگ رخ بھی سامنے آسکتا ہے۔ اس لئے عدالت میں سماعت سےقبل جس طرح سے ظہر تا عشاء لاؤڈاسپیکر کی آوازرکھی جارہی تھی، اسے پوری طرح سے برقرار رکھا جائے ۔ اس وقت فجر میںچونکہ اذان لاؤڈاسپیکر پرہوتی ہی نہیںہے اس لئے فجر کا مسئلہ نہیں ہے لیکن دیگر اوقات میں دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم نےاپنے طور پرالگ الگ علاقوں میں جب معلومات حاصل کی تو اندازہ ہوا کہ بیشتر جگہوں پرتو پورا پورا خیال رکھاجارہا ہے لیکن کچھ ٹرسٹیان کو اب بھی اس جانب فوری طور پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ عدالت میںہمارا مدعا واضح رہے اوریہ بھی ثابت ہوسکے کہ ہم نے قانون اور ضابطے کی مکمل پاسداری کی ۔اس کےباوجود پولیس کی جانب سے سختی برتی گئی، حتیٰ کہ جرمانہ وصول کیا گیااورٹرسٹیان ِ مساجد کونوٹس بھی دیئے گئے ۔
اسی طرح بعض لوگوں نے وہاٹس ایپ گروپ پر بھی ٹرسٹیان ، ائمہ مساجد ، سماجی خدمت گاروں اور اس کیس کے تعلق سے فکر مند رہنے والوں کو توجہ دلاتے ہوئے لکھا کہ ’’ عدا لت کا حتمی فیصلہ آنے تک ہم صبروتحمل ، نظم وضبط کا بھرپور مظاہرہ کریں۔ لاؤڈاسپیکرکی آواز سے بھی چھیڑچھاڑ نہ کی جائے ۔‘‘ اس کےعلاوہ ہمیں یہ بھی دھیان رکھنا چاہئے کہ خواہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہو، وہاٹس ایپ اور دیگر گروپس ہوں، پولیس اور دیگر اداروں کے اہلکاروں تک بھی وہ پیغام پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے احتیاط ضروری ہے ا وراسی میں بہتری ہے ۔ معمولی سی بے احتیاطی یاقبل ازوقت غیرضروری جوش وخروش سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔