Inquilab Logo Happiest Places to Work

ممبرا کے تاجر اور سماجی لیڈر شمیم خان زیرو سے ہیرو کی زندہ مثال ہیں

Updated: July 07, 2025, 12:12 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

غربت کے سبب ۱۲؍ ویں کی تعلیم مکمل کرکے سدھارتھ نگر سے ممبئی کا رخ کیا،بیکری میں اپنےہاتھ جلائے، رکشا چلایا، ہوٹل میں مزدوری کی عبدالرحمٰن اسٹریٹ پر دکان سنبھالی اور پھر ترقی کی منزلیں طے کرتے ہوئے بطورتاجر ہی نہیںسماجی اور سیاسی طور پر بھی اپنی ممتاز شناخت بنائی۔

NCP President of Akola Assembly Constituency and renowned businessman Shamim Khan receiving the award. Photo: INN
ممبراکلوا اسمبلی حلقہ کے این سی پی کے صدر اور معروف تاجرشمیم خان ایوارڈ لیتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

یوپی کےضلع سدھارتھ نگر (بستی ) سے تعلق رکھنےوالے شمیم احمد خان نے جو ممبرا کی معروف سیاسی، سماجی اورملّی شخصیت ہیں، اپنی انتھک محنت، جہدوجہد اور ایمانداری سے معاشرہ میں جہاں اپنا علاحدہ مقام بنایاہے وہیں سیاسی، تعلیمی اور سماجی حلقوں میں بھی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ وہ ممبراکلوا اسمبلی حلقے کے این سی پی کے صدر ہونے کےساتھ ہی اتحاد ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین اور جامعہ اسلامیہ ( سدھارتھ نگر) کے ناظم اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہیں۔ 
  اس کے علاوہ ممبرا کلوامیں کامیاب بلڈر اور ڈیولپر کے طور پر ان کی منفرد شناخت ہے۔ ان کی ہمہ جہت خوبیوں اور صلاحیتوں کی بناپر، انہیں ایک کامیاب کاروباری اور سیاسی وسماجی رہبر کا خطاب بھی حاصل ہے۔ 
 شمیم احمد خان کی پیدائش، ضلع سدھارتھ نگر کے گائوں اکبرپور باسی کےمتوسط خانوادہ میں ہوئی۔ ان کے والد حاجی عبدالغنی خان بیکری میں ملازمت کرتے تھے۔ محدود آمدنی سے ۵؍بچوں کی کفالت اورتعلیم وتربیت مشکل تھی۔ بھائی بہنوں میں سب سےبڑےشمیم خان اپنے والدین کو جدوجہد کرتا دیکھ رہے تھے اس لئے جلد از جلد والدین کاسہارابنناچاہتےتھے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۲؍ ویں کی پڑھائی کےبعد خاموشی سے والدین کوبغیر اطلاع دیئے، ۱۹۸۸ء میں سدھارتھ نگر سےممبئی کوچ کر آئے۔ 
 سب سے پہلے، ٹیکسی مینس کالونی، کرلا میں اپنے چاچا ڈاکٹرنظام الدین کے پاس پہنچے۔ چچا پہلے تو تنہا دیکھ کر حیران ہوئے پھر ڈانٹا کہ والدین کو بغیر بتائے ممبئی کیوں آئے ہو؟شمیم خان نے گھر کی حالت بیان کی جسے سننے کےبعد انہوں نے شمیم خان کوکرلاکی ممتاز بیکری میں مزدور کی حیثیت سے کام پر لگوادیا۔ وہ بیکری میں روزانہ ۱۸؍ گھنٹے مزدوری کرتے۔ اس وقت انہیں ماہانہ ۷۰؍ روپے ملتے تھے۔ جس میں سے، کھانے پینے کےخرچ کےبعد بچ جانے والی رقم، وہ اپنی والدہ کو گائوں بھیج دیتے۔ بیکری میں مزدوری کےدوران فاضل وقت میں کسی طرح رکشاچلانا سیکھ لیاتاکہ کچھ اضافی آمدنی ہوجائے۔ ۶؍مہینے بیکری میں کام کیا۔ بیکری اوررکشا چلانے کے علاوہ انہوں نےاپنے ایک شناسا عبداللہ بھائی کی ہوٹل میں مزدوری بھی کی۔ محنت کرنےمیں کبھی جھجھک محسوس نہیں کی، جو کام مل گیا کرتے رہے۔ ان کی اسی خوبی کا ان کی ترقی میں  اہم رول ہے۔ 
 زندگی کی جدوجہداور کامیابی کے سفر سےمتعلق سوال پر وہ بتاتے ہیں کہ ’’ ممبئی آنےکےبعد چند برسوں تک بڑی تگ ودو کرنی پڑی۔ بیکری میں گرم بھٹی سے بسکٹ وغیرہ کاٹرے نکالتے وقت کئی بارہتھیلیاں جل گئیں، ہوٹل میں بیرے کے نہ ہونے پر چائے پہنچانے اور ددوھ کی گاڑی سے کاندھوں پر لاد کر گیلن بھی اُتارا۔ بھلا ہومیرے خالہ زاد بہنوئی عبدالسلام کا جنہوں نے بیکری سے ہٹاکر مجھے اپنی الیکٹرانک سازوسامان کی دکان پر کام کرنے کا موقع دیا۔ عبدالرحمٰن اسٹریٹ پران کی الیکٹرانک سامان کی دکان تھی۔ وہیں سے میری کامیابی کا آغاز ہوا۔ انہوں نے بڑے بھائی کی طرح میری سرپرستی کی اوراپنے ساتھ مجھے رکھا۔ اپنا کاروبارسکھایا۔ الیکٹر انک سامان اس دور میں مدراس سے آتاتھا۔ مجھے ۲؍سال مدراس میں رکھا۔ جب مجھے مکمل معلومات ہوگئی تو انہوں نے مجھے اپنی مذکورہ دکان کرایہ پر دینےکی پیشکش کی۔ کہا اب تم اس دکان کے مالک ہواوریہ تمہارا کاروبار ہے، میں دوسری دکان شروع کروں گا۔ اس پر میں نے کہاکہ میں یہ دکان کرایہ پر نہیں البتہ آپ کی ۵۰؍ فیصد شراکت پر لوں گا، میری درخواست قبول ہو گئی۔ اس دکان سے ترقی ملی۔ جب دکان پوری طرح سیٹ ہوگئی تو میرے دل میں کچھ اور آگے بڑھنےکی خواہش پیداہوئی۔ ۲۰۰۲ءمیں میرے ایک محسن اسد انصاری نے زمین کاکاروبار شروع کرنےکامشورہ دیا۔ ان کی شراکت داری میں دہیسر موری، پنویل روڈ میں سب سے پہلی زمین خریدی، اس کی پلاٹنگ کرکے فروخت کرنےپر معقول منافع ہوا۔ اسی دوران کچھ مہینوں بعد ممبراکےمسلم شیخ عرف اچھن بھائی سے ملاقات ہوئی، انہوں نے کنسٹرکشن کاکام شروع کرنے کی صلاح دی۔ ان کے ساتھ ۵؍فیصد کمیشن پر کام کرنے کاموقع ملا۔ یہاں سےپھر میں نے پلٹ کرنہیں دیکھا، یکے بعد دیگرے متعدد اعلیٰ اور معیاری عمارتیں تعمیرکیں۔ گزشتہ ۲۰؍سا ل میں ممبرا کوسہ میں تقریباً ۷۔ ۸؍ معروف رہائشی کمپلیکس بنائے ہیں۔ آج ممبراکوسہ کی معروف تعمیراتی کمپنیوں میں میری کمپنی کاشمار ہوتاہے۔ ‘‘
 ایک سوال کےجواب میں انہوں نے بتایاکہ ’’ جب میں ممبئی آیاتھا، اس وقت رکشا اور ٹیکسی میں سفرکرنے والوں کودیکھ کر سوچتاتھاکہ یہ لوگ بہت بڑے اور امیر ہیں، کیا میں بھی کبھی ان سواریوں پرسوار ہوسکوں گا؟ اللہ تعالیٰ نے میری تمام خواہشوں کو پورا کیا، میں ربِ کریم کابےحد مشکور ہوں۔ نئی نسل کو بس یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ محنت، ایمانداری اور جدوجہد کاسلسلہ جاری رکھیں، یہ وہ خوبیاں ہیں جو کبھی ضائع نہیں ہوتیں۔ مستقل مزاجی اور جنون سے اپنے ہدف کی جانب رواں رہیں، منزل ضرور ملے گی۔ ‘‘
  شمیم خان کے بقول ’’میں انفرادیت پر نہیں اجتماعیت پر یقین رکھتاہوں، صرف اپنے یا اہل خانہ کیلئے جیناکوئی زندگی نہیں ، اگرمیں خوشحال ہوں اورکسی کی مدد کرسکتاہوں تومیری اخلاقی ذمہ داری ہےکہ کسی کے کام آسکوں ، اسی جذبہ کے تحت میں نے سماجی کاموں کو منظم طریقہ سے کرنے کیلئے ۱۹۹۶ءمیں ابو عاصم اعظمی کی قیادت میں سماجوادی پارٹی جوائن کی تھی۔ اس وقت ممبراکلوا اسمبلی حلقہ کے صدر عادل خان اعظمی تھے۔ ۱۹۹۶ءمیں، میں نے ممبرکی حیثیت سےپارٹی جوائن کی اور ۲۰۰۱ءمیں ممبراکلواکامجھے صدرمنتخب کیاگیا۔ ۲۰۱۳ءمیں اور مضبوطی کےساتھ عوام کی خدمت کیلئے میں این سی پی میں شامل ہوا۔ ڈاکٹر جتیند ر اوہاڑکی سربراہی میں کام کرنے کاموقع ملا۔ فی الحال میں ممبراکلو ا کااین سی پی کا صدرہوں۔ اس دوران تھانے پبلک ٹرانسپورٹ کمیٹی کاممبرمنتخب کیاگیا۔ اس عہدہ پررہتے ہوئے ممبراسےبھیونڈی، میراروڈاور گوونڈی وغیرہ کیلئے بس سروس شروع کی۔ ممبرا کے گلی محلوں میں بھی بس خدمات شروع کرنےمیں کامیابی ملی۔ متل روڈ پر واقع حکیم اجمل خان دواخانےکیلئے شروع کرائی گئی بس کے ذریعے لوگ ممبرا کے اندرونی علاقوں کابھی سفر کرلیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ ’’ آبائی گائوں کے جامعہ اسلامیہ کا میں ناظم اعلیٰ ہوں، یہاں گزشتہ ۳۵؍سال سے سیکڑوں طلبہ دینی اور عصری علوم سے آراستہ ہورہےہیں۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK