خبروں کے پیچھے بھی خبریں ہوتی ہیں جو عام طور پر ہر کسی تک نہیں پہنچتیں مگر حالیہ دنوں میں اکثر خبریں عام لوگوں تک پہنچی ہیں۔ اس کے باوجود کچھ نہ کچھ سمجھنا باقی رہ جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: July 08, 2025, 1:54 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
خبروں کے پیچھے بھی خبریں ہوتی ہیں جو عام طور پر ہر کسی تک نہیں پہنچتیں مگر حالیہ دنوں میں اکثر خبریں عام لوگوں تک پہنچی ہیں۔ اس کے باوجود کچھ نہ کچھ سمجھنا باقی رہ جاتا ہے۔
اس کالم کے عنوان سے شاید آپ کو ہمارا وہ کالم یاد آجائے جس میں ہم نے کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں لڑائی ضرور ہوگی لیکن جنگ نہیں ہوگی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم نے یہ باتیں زمین پر لکھی ہوئی حقیقتوں کو دیکھ کر کہی تھیں ۔ ہم نہ اُس وقت کوئی پیش گوئی کررہے تھے اور نہ ہی آج کوئی کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہم نے اپنے اس مضمون کا عنوان بی جے پی نہیں مٹے گی اور آرایس ایس مٹ جائے گا، کیوں رکھا؟ دیکھئے پارٹیاں دو چیزوں سے بنتی ہیں ۔ ایک تو وہ جن میں لوگوں کی تعداد اتنی بے پناہ ہو اور ان کا دباؤ اتنا زبردست ہو کہ لیڈر شپ کچھ کر نہ سکے، یا پھر وہ چیزیں زندہ رہتی ہیں جن کا تعلق کسی جذبے یا تحریک سے ہوتا ہے جو منٹوں میں نہیں ،برسوں میں بنتا ہے۔ بی جے پی ایک پارٹی ہے اور اس کے پاس بے پناہ فنڈ ہے۔ آر ایس ایس ایک جذبہ ہے جسے گزشتہ آٹھ دس سال میں دولت تو کافی ملی ، ہر شہر میں اس کےدفاتر ایئر کنڈیشنڈ ہوگئے، اس کی پاٹھ شالاؤں کو مختلف طریقوں سے فنڈ بھی دیا گیا مگر بحیثیت پارٹی سارا مال و زر تو بہر حال بی جے پی کے پاس ہے۔ آپ کو خیال ہوگا کہ اس عرصے میں جب یہ قانون پاس ہوا تھا کہ الیکشن بانڈس لینے والی تجارتی کمپنیو ں کو ٹیکس کی کچھ رعایت ملے گی تو یہ پتہ چلا کہ سب سے زیادہ فنڈ بی جے پی کو ملا تھا۔ دیگر پارٹیوں کو بھی ملا لیکن اس کی مقدار بہت کم تھی۔ ان کے مقابلے بی جے پی کا فنڈ بہت زیادہ اور اونچا تھا۔ بی جے پی کے چانکیہ کہلانے والے امیت شاہ نے ایک ترکیب یہ پاس کی تھی کہ یہ فنڈ ویسے تو پارٹی کا کوئی بھی اہم عہدیدار نکال سکتا تھا لیکن ہر ایک چیک نکالنے سے پہلے اس پر امیت شاہ کے دستخط ضروری ہیں ، تو ظاہرہے کہ امیت شاہ بہت مالدار ہوں گے، لیکن اتنے بھی نہیں کہ ایک پارٹی کو اکٹھا کرسکیں ۔
ہندپاک جنگ کے بارے میں سبھی کو معلوم تھا کہ کشمیر کو تین حصو ں میں تقسیم کرنے کی احمقانہ تجویز کے بعد چین نے صاف کہہ دیا تھا کہ کشمیر اب دو فریقی معاملہ نہیں ہے، اس میں تیسرا فریق چین بھی شامل ہوچکا ہے۔ چنانچہ کشمیر کے مستقبل پر جو بات بھی ہوگی وہ دو فریقوں سے نہیں ہوگی تین سے ہوگی۔ یعنی اگر کوئی ایسی جنگ ہوئی تو کسی نہ کسی بہانے چین ضرور آدھمکے گا۔ اب تویہ خبریں عام گفتگو تک پہنچ گئی ہیں کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ، وہ دو تین دن سے زیادہ کوئی جنگ جاری نہیں رکھ سکتا۔ ہندوستان میں بھی مالی حالت بہت اچھی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بات جب ایک عام ہندوستانی بھی جانتا ہے ، تو کیا جنگ شروع کرنے والے اور جنگ ختم کرنے والوں کو نہیں معلوم تھی؟
ہم نہیں ، ہندوستان کے پروین سواہنی جیسے انٹرنیٹ بلاگر س بھی جانتے تھے اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اگر ہندپاک میں واقعی کوئی جنگ ہوئی تو چین اس میں آدھمکے گا اور اب تو سارا ہندوستان یہ بات جانتا ہے کہ اگر اس نام نہاد جنگ میں واقعی کوئی فریق بھاری رہا تو وہ چین تھا۔ اسی کے فضائی ہتھیاروں نے ہندوستانی فضائیہ کی طاقت کو متاثر کیا۔ تو کیا ہندوستان کے دفاعی ماہرین اس حقیقت سے واقف نہیں تھے؟ ظاہر ہے کہ وہ تھے لیکن حالات کو جس طرح ہونا ہوتا ہے اسی طریقے سے ہوتے ہیں ۔ اب ایک بار پھر یہ سوال آتا ہے کہ ان تمام باتوں کا اس سے کیا تعلق ہے کہ بی جے پی زندہ رہے لیکن آر ایس ایس ختم ہوجائے گا؟ پارٹیاں بنتی ہیں ، کبھی ٹوٹتی بھی ہیں اور کبھی توڑی بھی جاتی ہیں ۔ کئی پارٹیوں کا حشر ہمیں معلوم ہے۔ جو بنیں ، پھر ٹوٹیں یا توڑی گئیں لیکن ان کا اثر پارٹی کی مجموعی حیثیت پر کچھ بہت زیادہ نہیں ہوا۔ چنانچہ یہ کہنا کہ پارٹیاں خود بخود ختم ہوجاتی ہیں درست نہیں ۔ بی جے پی کے پاس بے پناہ فنڈ ہے اسلئے جب تک یہ فنڈ ہے تب تک بی جے پی کا آدمی بی جے پی سے کیوں ہٹے گا؟ اگر کوئی اچانک اُفتاد نہ پڑی تویہ فنڈ جب تک موجود رہے گا، بی جے پی والوں کو کسی دوسری پارٹی میں جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
یہ بھی پڑھئے : سون بھدر اور بارہ ماسی کہلانے والی سوہن ندی
ہمیں اور آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں الیکشن کا سسٹم کچھ ایسا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ یہاں کے بلدیاتی کارپوریٹر کو بھی الیکشن جیتنے کیلئے کروڑوں روپے لگانے پڑتے ہیں ایسے میں آج شاید ہی کوئی ایسا کارپوریٹر ہو جو اپنی جیب سے اتنی بڑی رقم لگائے اسلئے جب تک پارٹی کےپاس فنڈ موجود ہے، بی جے پی کارکن اسی کے سہارے رہیں گے۔ آج بھی بی جے پی ایک پارٹی ہے اور آر ایس ایس ایک تحریک ہے۔ پارٹی چند لوگوں سے بن جاتی ہے لیکن تحریکیں برسوں او رکبھی کبھی صدیوں کی سوچ کا نتیجہ ہوتی ہیں چنانچہ جیسا کہ کہا گیا بی جے پی ایک پارٹی ہے اور آر ایس ایس ایک ایسا جذبہ ہے جو اگر صدیوں نہیں تو برسوں کی سوچ وِچار کا نتیجہ ہے۔ اس سوچ وِچار کا ’مکھیہ دھارا‘ ہندوتوا تھا جس کے سہارے ملک کی ہر سیاسی پارٹی کسی نہ کسی طور پر الجھی ہوئی رہی ہے، مگر اب حالات بہت بدل چکے ہیں ۔ کیا آج بھی کوئی سمجھتا ہے کہ ہندوتوا بی جے پی اور آر ایس ایس کا خاص دھارا رہ پائے گا؟ اس سوال کا جواب ہم اپنے عقلمند قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ وہ بتائیں کہ یہ صورتحال یوں ہی قائم رہے گی یا بدلے گی، ایک بات اور بتا دیں کہ ہندوستان جو آج ہماری نظر میں ہے، یہ ہندوستان ہمیں کسی او رنے نہیں ایسٹ انڈیا کمپنی یا برٹش راج نے دیا تھا، ہم جسے ہندوستان کہتے ہیں وہ انگریزوں کی بنائی ہوئی معیشت کا نتیجہ تھا۔ انگریزوں نے یہ چیزیں چاہے جس مقصد سےبھی بنائی ہوں لیکن بہر حال نتیجہ وہ ہے جو آج ہمارے ہندوستان میں نظر آرہا ہے چنانچہ یہ بڑی آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کو اکیسویں صدی تک قائم رکھنے کیلئے جس بیرونی پالیسی کی ضرورت تھی وہ بیرونی طاقت آج بھی موجود ہے۔ ٹرمپ کون ہے؟ اس کا نام ہم بے مقصد نہیں لیتے، ہم خود نہیں کہتے ، آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیاٹرمپ کا دباؤ محسوس نہیں کیا جارہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ آج تک حکومت نےیہ نہیں بتایا کہ ٹرمپ کی دھمکی کو مزید ٹالنے کیلئے اسکے پاس کیا طریقے ہیں ؟ ہمیں نہیں لگتا ہے کہ اِس حکومت کے پاس اِس دباؤ سے بچنے کا کوئی طریقہ ہے۔ چنانچہ اگر نریندر مودی نے وقت کو مزید ٹالنے کے لئے کوئی بہانا تلاش بھی کرلیا تو آر ایس ایس کے پاس اس کا کیا جواب ہوگا؟ آئندہ چند ہفتے غالباً اِس کا جواب دے بھی دیں گے۔