فطرتاً انسان خوشیوں اور آسانیوں کا متلاشی ہوتا ہے لیکن زندگی کا مزاج بھی دھوپ چھاؤں جیسا ہے۔ کبھی خوشی کے میلے ہوتے ہیں تو کبھی غم کے بادل چھائے رہتے ہیں۔ ہم انسان چونکہ جلدبازاقع ہوئے ہیں اسلئے ذرا سی مشکل پیش آئے تو گھبرا کر ہمت ہار جاتے ہیں جبکہ جذبہ اور امنگ کے ذریعہ زندگی بہتر ہوسکتی ہے۔
اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور پُر لطف باتیں کرنے سے ہم اپنے آس پاس خوشیاں بکھیر سکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
خوشی ایک ایسا جادوئی لفظ ہے جس کو صرف زبان سے ادا کرنے سے بھی ایک خوشگوار سا احساس جنم لے لیتا ہے۔ اس خوشگوار احساس کو خود محسوس کرنا اور دوسروں کو محسوس کروانا کتنا حسین تجربہ ہوسکتا ہے شاید ہم نے کبھی نہ کبھی ضرور آزمایا ہوگا۔ فطرتاً انسان خوشیوں اور آسانیوں کا متلاشی ہوتا ہے لہٰذا اُس کی بیشتر جدوجہد بھی خوشی اور آسانی کے حصول کے اردگرد گھومتی ہے، دوسری جانب زندگی کا مزاج بھی دھوپ چھاؤں جیسا ہے، یہ ہمیشہ ایک سا رنگ نہیں رکھتی، کبھی اتنی مہربان ہو جاتی ہے کہ ہر جانب خوشیوں کے میلے لگے محسوس ہوتے ہیں اور کبھی اتنی بے مہر ہوجاتی ہے جیسے مسکراہٹوں سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو۔ خوشی، غم، سختی اور آسانی زندگی کے مختلف روپ اور ہزار پہلو ہیں اور ہمیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اس کے کسی نہ کسی پہلو کے رو برو ہوناہی ہے، اگرہم زندگی کو بہتر اندازمیں بسر کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس حقیقت کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ زندگی ایک امتحان گاہ ہے یہاں کسی کو بھی سب کچھ بیک وقت نہیں مل سکتا۔ زندگی کےگھومتے ہوئے دائرے میں خوشیاں اور غم ایک پہئے کی مانند ہر دم گردش میں رہتے ہیں، کبھی آزمائشیں دامنگیر ہوتی ہیں توکبھی خوشیاں مقدر ہوتی ہیں کہ یہی فطرت کا اسلوب بھی ہے۔ ہم انسان چونکہ جلدباز، سہل پسند اور بے صبر واقع ہوئے ہیں اس لئے ذرا سی مشکل پیش آئے تو گھبرا کر ہمت ہار جاتے ہیں، بہت جلد مایوس ہوجاتے ہیں، اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مشکلوں کے ساتھ آسانی کی بشارتیں ہمیں دی ہیں، آزمائش اور تنگ حالات میں بھی ان گنت چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہمارے اطراف میں موجود ہوتی ہیں مگر اپنی مایوسی و ملال میں مبتلا ہم اس قدر خود ترسی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ مشکلوں کے ساتھ آنے والی آسانیاں ہمیں نظر ہی نہیں آتیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ زندگی کے اس نشیب و فراز میں سب سے زیادہ ہمارا نچلا اور متوسط طبقہ زیادہ خوار ہوتا ہے، یوٹیلیٹی بلز، بچوں کی فیس، راشن اور ادویات کی فکروں سے شروع ہونے والا مہینہ ادائیگیوں کو بھگتاتے ہوئے ختم ہوجاتا ہے، سارے اخراجات کے بعد اپنی ذات اور شوق پر خرچ کرنے کے لئے شاذ ہی کچھ بچ پاتا ہے اگر کچھ باقی رہ بھی جائے تو وہ مستقبل کی بچت کے نام پر ایک انجانے کل کی ضروریات کے حوالے ہو جاتا ہے۔ حساب کتاب، جمع تفریق اور بلوں کی ادائیگیوں میں سرگرداں رہنے کی مشقت نے ہمیں ایک انسانی کیلکو لیٹر میں تبدیل کردیا ہے۔ اس کے باوجود بقول شاعر: زیست کا پیٹ ہی نہیں بھرتا/ خرچ ہم بے حساب ہوتے ہیں!
اگر زندگی کا دوسرا نام سمجھوتہ یا کمپرومائز رکھ لیا جائے تو شاید کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ آپ اور ہم میں ہی موجود کئی لوگ ہیں جو ایسے ہزاروں سمجھوتے کرتے رہنے پر مجبور ہیں، یہ وہ مائیں ہیں اپنی خوشیوں اور شوق کو پس پشت ڈال کر اپنا زیور اپنی ہر اچھی چیز بچیوں کے لئے سینت کر رکھ دیتی ہیں، وہ باپ ہیں جو نئے کپڑوں جوتوں اور آسائش سے دستبردار ہو کر اپنوں کے آرام و راحت کی خاطر ساری زندگی کو لہو کے بیل کی طرح سر جھکائے بس کام کرتے جاتے ہیں۔ فرض سمجھ کر ادا کی جانے والی یہ وہ قربانیاں ہیں جن پر یہ طبقہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا مگر یہ بھی سچ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ یہ قربانیاں اور سمجھوتے اپنا خراج بھی وصول کرتے ہیں شخصیت اور مزاج پر اس طرح اثر انداز ہوتے ہیں کہ شگفتگی اور نرمی کی جگہ سختی اور کرختگی لے لیتی ہے۔ اپنی بساط سے زیادہ بوجھ اٹھانے اور خوشیوں کو مؤخر کرتے رہنے کا نقصان یہ ہوتا ہے فرائض کی ادائیگی میں راحت و سکون کے بجائے بد دلی اور اکتاہٹ شامل ہو جاتی ہے پھر آسان امور بھی مشکل اور ناممکن محسوس ہونے لگتے ہیں۔ قربانیاں اگر خوشی نہ دیں.... محنت اگر تھکن کے سوا کچھ نہ دے تو ایک غلامی، ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ اسی لئے بسا اوقات یہ درمیانی طبقہ اپنی درمیانی عمر تک آتے آتے چڑچڑی خواتین اور کرخت مزاج مردوں میں بدل جاتا ہے، اپنا محاسبہ ضرور کریں کہ کہیں ہم بھی ایسی کسی کیفیت کا شکار تو نہیں بن رہے؟ اس صورتحال سے بچنے کا ایک ہی گُر ہے کہ کل کی کشاکش میں اپنے آج کو ضائع نہ کریں جینے اور خوشی کے ساتھ جینے کے امکان تلاش کریں، اپنے آس پاس بکھری ہوئی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو نظر انداز نہ کریں، اپنوں کے ساتھ کو غنیمت جان کر رشتوں اور احساسات کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں۔ مثبت سوچ و عمل کے ساتھ خوشیوں اور آسانیوں کا انتظار کرنا بذاتِ خود ایک آسانی ہے اور زندگی کا حقیقی حسن بھی یہی ہے کہ خود کو اس کے ہر رنگ میں ڈھال لیا جائے۔ غریب یا سفید پوش ہونا کوئی عیب نہیں آپ کے پاس لاکھوں کروڑوں کا سرمایہ بھلے نہ ہو، احساس اور مثبت سوچ کی دولت اگر ہے تو زندگی گلزار ہوسکتی ہے، جینے کیلئے زر اور دولت نہیں بلکہ جذبہ اور امنگ کافی ہے۔