Inquilab Logo

ممبرا: فیس ادا نہ کر پانے کی وجہ سے کئی طلبہ تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور

Updated: January 15, 2022, 8:14 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai

سماجی طور پر سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں ممبرا کوسہ کے اہلِ خیر حضرات کو علاقائی سطح پر ایک فنڈقائم کرنا چاہئے جس سے ایسے بچوں کی اسکول کی فیس ادا کی جا سکے جو خراب مالی حالات اور مجبوری کے سبب فیس ادا نہیں کر پارہے ہیں۔ اسکول بھی اپنے طور پر جتنا ہو سکے تعاون کرے تاکہ طلبہ کا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ ہو

Students` education is being hampered due to non-payment of school and college fees.
اسکول اور کالجوں کی فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے طلبہ کی پڑھائی کا نقصان ہو رہا ہے۔

ممبرا: ممبرا کوسہ کے غریب شہری ۲؍ سال قبل  ہونے والے لاک ڈاؤن سے اب تک ابھر نہیں پائےتھے کہ تیسری لہر کے سبب ایک بار پھرسخت پابندیاں عائد کئے جانے کا خطرہ منڈلانےلگا ہے ۔والدین کی بے روزگاری  اور مالی پریشانی کے سبب ایک بار پھرغریب طلبہ کا اسکول اور کالج سے ڈراپ آؤٹ ہونے کا سلسلہ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔فیس کے لئے مدد کرنے والی تنظیموں کے در پر کئی غریب سرپرست اپنے بچوں کی فیس کی ادائیگی کے لئے مالی مدد حاصل کرنے پہنچ رہے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن کے سبب مدد دینے والے ہاتھ بھی کم ہو گئے ہیں اور  حالانکہ مدد لینے والے ہاتھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔  ان میں وہ پریشان حال بیوہ، علاحدہ ہو چکی مائیں اور ایسی خواتین بھی شامل ہیں جن کاخود کا کام کاج تو چھوٹ گیا ہے یا ان کے شوہر بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ایسے حالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنا ہی دشوار ہو رہا ہے تو وہ بچوںکے اسکولوں کی فیس کہاں سے ادا کر پائیں گے۔ سماجی طور پر سرگرم افراد  کا کہنا ہے کہ   ایسے حالات میں ممبرا کوسہ کے اہلِ خیر حضرات کو علاقائی سطح پر ایک فنڈقائم کرنے کی ـضرورت ہے جو ایسے بچوں کی اسکول کی فیس ادا کر ے   جو والدین کی خراب مالی حالات اور مجبوری کے سبب اسکول فیس ادا نہیں کر پارہے ہیں۔ اس میں اسکولوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے طور پر جتنا ہو سکے تعاون کرے تاکہ طلبہ کا تعلیمی سلسلہ منقطع نہ ہو۔
  کوسہ میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم کے آفس میں راقم کے سامنے ۲؍ایسی خواتین آئی  تھیں جن کے بچوںکی فیس ادا نہ ہونےکے سبب ان کے بیٹے امسال ایس ایس سی کا امتحان نہیں دے رہے ہیں۔ ایک خاتون   کے ۳؍ بچے مختلف جماعت  اور پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کا ایک بیٹا  دسویں جماعت میں انگریزی میڈیم میں زیر تعلیم ہے  اوراس کی  ۳۰؍ ہزار روپے فیس ادا نہ کر پانے کے سبب اسکول نے اس کا ایس ایس سی بورڈ امتحان کا فارم پُر کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ خاتون نے مجبور ہوکر اپنے بیٹے کو اسکول چھڑا کر ایک مقامی موبائل شاپ پر ملازمت پر بھیج دیا ہے تاکہ وہ مالی پریشانی سے دوچار خاندان کی کفالت میں مدد کر سکے ۔  اس خاتون کے شوہر ۲؍ سال پہلے ملازمت کرتے تھے لیکن لاک ڈاؤن میں ان کی ملازمت چھوٹ گئی اور جب لاک ڈاؤن ختم ہوا تو اس کے مالک  نے اسٹاف کم کر دیا اور اس چھٹنی میں اس خاتون کے شوہرکو ملازمت سے ہٹا دیا۔اس بچے کی لاک ڈاؤن سے پہلے تک کی فیس ادا کی جاچکی ہے لیکن لاک  ڈاؤن کے بعد سے فیس ادا نہیں  کی گئی ہے۔
 ایجوکیشن پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ملی تحریک  کے فیصل چودھری کے مطابق اب تک ان کے رابطہ  میں  متعدد ایسے  خاندان آچکے ہیں جن کے ۱۲؍ تا ۱۳؍ بچے فیس ادا نہ کر پانے کے سبب دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحانات میں شرکت سے محروم ہو رہےہیں۔ ان کے علاوہ سیکڑوں بچے دیگر جماعت سے تعلیمی سلسلہ منقطع کر رہے ہیں۔ ان سرپرستوں میں اکثریت بیوہ اور ایسے خاندان کی ہیں جن کے شوہروں کی ملازمت چھوٹ گئی ہے ۔ متعدد خواتین تو کئی گھروں کا کا م کر کے اہل خانہ کی کفالت کرتی تھیں اب ان کے چند گھر والوں نے گھر کا کام کروانے سے منع کر دیا گیا ہے جس سے ان کی آمدنی کافی کم ہو گئی ہے۔ گویا غربت بڑھتی جارہی ہے اور امداد کم ہوتی جارہی ہے اور ایسے حالات میں ڈراپ آؤٹ کو روکنے کیلئے ہماری تنظیم نے گزشتہ کئی برسوں سے اسکالر شپ کا فارم مفت پُر کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے تاکہ کم از کم اسکالر شپ کی رقم سے طلبہ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں۔‘‘
 فیصل نے مزید بتایا کہ ’’کچھ پرائیویٹ ٹیوشن والے اپنے فائدہ کیلئے متعدد طلبہ کو گمراہ کر کے اسکول یا کالج سےچھوڑ کر  دسویں اور بارہویں کے بورڈ امتحانات میں پرائیویٹ طلبہ کے طور پر شریک کروانے کا جھانسہ دے رہیں اس کیلئے بھی ڈراپ آؤٹ بڑھ رہا ہے ۔‘‘
 اس سلسلے میں اسکولوں کی فیس میں رعایت اور ڈراپ آؤٹ کو روکنے کیلئے کام کرنے والی تنظیم سنگھرش کی چیئر پرسن روتا جتیندر اوہاڑ سے رابطہ قائم کرنے پر انہوںنے بتایا کہ ’’ فیس کیلئے مدد مانگنے والے ہاتھ بہت بڑھ گئے ہیں جبکہ لاک ڈاؤن کے سبب مدد دینے والے ہاتھ کم ہو  گئے ہیں، ہم نے گزشتہ برس بھی کئی  اسکولوں کو فیس معاف کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ ڈراپ آؤٹ کی شرح کم ہو، متعدد اسکولوں نے فیس میں رعایت بھی کی لیکن امسال اسکول اور ٹرسٹ اپنے اخراج بتانے لگے ہیں۔خاندان کی آمدنی کم ہونے کے سبب جب سرپرست بڑے اور مہنگے اسکولوں سےاپنے بچوں کو چھوٹے اور  اسکول میں داخل کروانا چاہتے ہیں تو فیس ادا  نہ ہونے کے سبب  بچے کا خارجہ سرٹیفکیٹ نہیں دیاجاتا ہے۔‘‘
 انہوں نے مزید بتایا کہ ’’آن لائن کلاس سے بچوں کی پڑھائی بری طرح متاثر ہوئی ہے  اس کا انکشاف حال ہی میں بچوں کے ایک ٹیسٹ میں سامنے آیا ہے اور اس کیلئے ہم لوگ خصوصاً میونسپل طلبہ کیلئے مفت خصوصی کوچنگ بھی شروع کرنے والے ہیں ۔‘‘
بیت المال کے  نظام کی ضرورت
  غیر سرکاری تنظیم سیوا کے نور الدین نائک نے کہا کہ ’’ممبرا کوسہ میں غریب عوام کا بہت برا حال ہے۔ یہاں امیر لوگ اپنے بچوںکی شادیوں میں لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں لیکن کسی غریب کے بچے کی اسکول فیس اداکرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ غریب بچوں کا ڈراپ آؤٹ روکنے کیلئے  ہمیں علاقائی اور مسجدوں کی سطح پر سروے کرنا چاہئے اور  بیت المال کا نظم قائم کرنا چاہئے تا کہ ان بچوںکی فیس ادا کی جاسکے۔  حالات ایسے ہیں کہ بچیاں اور خواتین ۴۔۴؍ ہزار روپےکی ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔‘‘   
اسکولوں کو اپنے طور پر رعایت دینے کیلئے آمادہ کیا جائے
 ڈاکٹر اسد اللہ خان  انگلش اسکول اور جونئیر کالج کے بانی ڈاکٹر اسد اللہ خان سے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایاکہ’’فیس کے مسائل کے حل کیلئے  اسکولوں کو ان کے انفرا اسٹرکچر اور تعلیمی شیڈول کے اسٹرکچر کی مناسبت سے بچوں کی فیس میں رعایت دینے پر آمادہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کیلئے ان پر کسی طرح کا دباؤ بناکر مجبور نہیں کرنا چاہئے ۔ اسکول کے اپنے بھی ناگزیر اخراج ہوتے ہیں (اساتذہ  اور دیگر اسٹاف کی تنخواہ ،لائٹ بل  وغیرہ)۔ کورٹ کی ہدایت کے مطابق اسکول کو کم از کم  ۱۵؍ فیصد فیس کم کرنا چاہئے البتہ اسکول اپنی استطاعت  کے مطابق ۱۵؍ تا ۳۰؍ اور ۵۰؍ فیصد بھی فیس میں رعایت دے سکتا ہے۔اس کے ساتھ اگر قسطوں میں  ادا کرنے کی سہولت دی جائے تو ڈراپ آؤٹ کے سلسلے کو روکا جاسکتا ہے۔ہم نے گزشتہ برس بھی اور امسال بھی ہر بچے کی ساڑھے ۳؍ ہزار روپے فیس معاف کی  ہے۔ اس کے علاوہ مستحق طلبہ کو انفرادی طور پر  مزید رعایت دی جارہی ہے۔ ‘‘
 انہوںنے کہا کہ’’  بورڈ امتحان کی فیس معمولی ( ۴۶۰؍ روپے) ہے اس لئے ہر اسکول تقریباً اپنے بچوں کو اس امتحان میں تو شریک کر ہی سکتا ہے  البتہ  طلبہ کو بورڈ امتحان میں شرکت سے روکنے کے بجائے اسے بقایا فیس قسطوں میں ادا کرنے کے بعد وہ خارجہ سرٹیفکیٹ دینے کی شرط نافذ کر سکتا ہے اس سے بچے کا سال تو خراب نہیں ہوگا۔ ‘‘
امتحان کے پہلے تک فارم پُر کرنے کی سہولت
 ڈاکٹر اسد اللہ خان نے بتایا کہ کورونا کے سبب ریاستی حکومت نے ایس ایس سی اور ایچ ایس سی بورڈ امتحانات شروع ہونے سے قبل تک امتحان میں شرکت کا فارم پُر کرنے کی سہولت  دی ہے ۔ اس لئے طلبہ کو اس سے استفادہ کرنا چاہئے۔انہوںنے یہ بھی کہا کہ ’’آن لائن ذریعہ ٔ تعلیم ناکام رہی ہے۔بین الاقوامی سطح پر بھی اس کااعتراف کیا گیا ہے ۔جتنی جلد ممکن ہو پڑھائی کا آف لائن نظام شروع کیا جانا چاہئے۔‘‘

mumbra Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK