غریب مریض نجی لیب سے جانچ کرانے پر مجبور۔ اسپتال میں پیٹ اور سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بھی نہیں آتے۔ اسپتال کی مقامی نگراں کے مطابق اس کے مینجمنٹ کی پالیسی میں یہ سہولت نہیں رکھی گئی ہے۔
EPAPER
Updated: December 27, 2025, 3:54 PM IST | Iqbal Ansari | Mumbra
غریب مریض نجی لیب سے جانچ کرانے پر مجبور۔ اسپتال میں پیٹ اور سینے کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بھی نہیں آتے۔ اسپتال کی مقامی نگراں کے مطابق اس کے مینجمنٹ کی پالیسی میں یہ سہولت نہیں رکھی گئی ہے۔
یہاں ایم ایم ویلی علاقے میں واقع مجاہد آزادی حکیم اجمل خان میونسپل اسپتال میں اب بھی مفت علاج کی کئی سہولیات مریضوں کو میسر نہیں ہیں۔ ان دنوں میں سردی اور بخار میں مبتلاافراد بڑی تعداد میں جب او پی ڈی میں آتے ہیں توا نہیں ڈینگو اور ملیریا جیسی خون کی جانچ باہر سے کروانےکو کہا جارہا ہے۔ غریب مریضوں کو پرائیویٹ لیب سے ۲؍ تا ڈھائی ہزار روپے میں یہ ٹیسٹ کروانا پڑ رہا ہے جس سے ان پر علاج کا کافی بوجھ پڑرہا ہے۔ اس سلسلے میں اسپتال انتظامیہ سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایاکہ جس مینجمنٹ کو یہ اسپتال چلانے کیلئے دیا گیا ہے، اس کی پالیسی میں یہی ہے کہ او پی ڈی کے مریض کے خون کی جانچ انہیں اپنے طور پر کروانا ہے، البتہ اگر مریض کو اسپتال داخل کرایا جاتا ہے تو اس کی جانچ اسپتال انتظامیہ کی جانب سے مفت میں کی جاتی ہے۔
ممبرا ریلوے اسٹیشن کے قریب ممبرا دیوی روڈ پر رہنے والی ایک خاتون کی بیٹی گزشتہ ۳؍ تا ۴؍دن سے بخار میں مبتلا تھی۔ مقامی ڈاکٹر او را س کے بعد بی ایم سی کے ایک اسپتال سےبھی اس کا علاج کرایا گیا لیکن افاقہ نہیں ہوا۔ مقامی افراد نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ ایم ایم ویلی میں جاری مجاہد آزادی حکیم اجمل خان میونسپل اسپتال لے جاؤ، وہاں اچھا علاج ہوتا ہے۔ لہٰذا جمعہ کو خاتون اپنی ۱۶؍ سالہ بیٹی کو رکشا کے ذریعے اسپتال لے گئی۔ اسے او پی ڈی میں چیک کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہاکہ چونکہ اسے کئی دنوں سے بخار آرہا ہے اس لئے بچی کی مکمل خون کی جانچ کروانا ہوگی۔ میونسپل اسپتال میں ایک ہی جانچ ہوگی اور باقی ۲؍ جانچ کا سیٹ آپ کو نجی لیب میں کروانا ہوگا۔ مذکورہ خاتون نے مزید بتایا کہ ’’بچی کے جسم میں پہلے ہی خون کم تھا اور وہ بہت کمزور بھی ہو گئی تھی اسی لئے مَیں نے کوسہ کے ایک نجی لیباریٹری سے میری بیٹی کی خون کی مکمل جانچ کروائی جس کیلئے ۲۲۰۰؍ روپے خرچ آئے۔ ‘‘
اسی طرح روزانہ کئی غریب مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
بچی کی والدہ نے سوال کیاکہ شہری انتظامیہ اور مقامی لیڈروں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مجاہد آزادی حکیم اجمل خان میونسپل اسپتال میں مفت علاج کی سہولتیں مہیا کرائی گئی ہیں تو پھر بنیادی خون کی جانچ کی سہولت کیوں مہیا نہیں کرائی گئی ہے؟ اور غریب لوگ ۲؍ تا ڈھائی ہزار روپے کہاں سے لائیں گے ؟ عوام پراپرٹی ٹیکس ادا نہ کریں تو اس کی املاک ضبط کر لی جاتی ہے لیکن شہری انتظامیہ کے اسپتال میں بنیادی سہولت نہیں ہےتو اس کے خلاف کون کارروائی کرے گا؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
اس ضمن میں مجاہد آزادی حکیم اجمل خان میونسپل اسپتال کی مقامی نگراں ڈاکٹر شارمین ڈنگا سے استفسار کرنے پر انہوں نے بتایاکہ ’’ چونکہ تھانے میونسپل کارپوریشن (ٹی ایم سی) نے پلاٹینیم اسپتال پرائیویٹ لمٹیڈانتظامیہ کو اس میونسپل اسپتال کا نظم کرنے کی ذمہ داری دی ہے اور ان کی پالیسی میں او پی ڈی میں علاج کیلئے آنے والوں کے مکمل خون کی جانچ کی سہولت فراہم نہیں کی گئی ہے، اس لئے ایسا ہو رہا ہے۔ البتہ جو مریض یہاں داخل ہوتے ہیں ان کی سبھی جانچ مفت کرائی جاتی ہے۔ ‘‘اسپتال میں پیٹ کے امراض کے ماہر ڈاکٹر اور سینے کے امراض کے علاج کے ماہر ڈاکٹر بھی نہیں آتے ہیں۔ اس بارے میں استفسار کرنے پر انہوں نے نمائندۂ انقلاب سے کہا کہ’’اس ضمن میں آپ کو میونسپل ہیلتھ افسر سے رابطہ قائم کرنا ہوگا۔ اس بارے میں مَیں مزید کچھ نہیں بتا سکتی۔ ہم نے محکمہ صحت کو یہاں علاج کی سہولتوں کے فقدان کے تعلق سے تحریری طور پربھی بتایا ہے۔ ‘‘
اس ضمن میں تھانے میونسپل ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر پرساد پاٹل سے رابطہ قائم کرکے خون کی جانچ اور گیسٹرو لوجسٹ /چیسٹ فیزیشن کے مسئلہ کے تعلق سے استفسار کرنے پر انہوں نے راجیو گاندھی میڈیکل کالج اینڈ چھترپتی شیواجی مہاراج میونسپل اسپتال کی ڈین سے رابطہ قائم کرنے کو کہا۔
اس ضمن میں ڈین ڈاکٹر سپنالی کدم سے رابطہ قائم کرنے پر انہوں نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ’’ اگر او پی ڈی کے مریضوں کا ڈینگو اور ملیریا ٹیسٹ نہیں لیا جا رہا ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مَیں ڈاکٹر پردنیا جادھو ( جن کو اس اسپتال کا انتظام سنبھالنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ) سے بات کرتی ہوں۔ ‘‘ انہوں نے مزید کہاکہ ’’جہاں تک گیسٹرو لوجسٹ اور چیسٹ فیزیشن ڈاکٹر ’ آن کول ‘ آتے ہیں ۔ اگر اسپتال میں متعلقہ مریض آرہے ہیں تومقامی سطح پرڈاکٹر اور مریضوں کو ایک طے شدہ وقت پر بلانے کانظم کرنا چاہئے۔ اس بارے میں بھی مَیں متعلقہ ڈاکٹر سے بات کرتی ہوں۔ ‘‘