کہا:اتنے قدیم اسٹیشن پر سہولتوں کا فقدان ، ٹرین خدمات بڑھانے اور دیگر مطالبات پر عدم توجہی۔ صبح کے اوقات میں ٹرینوں میں سوار ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
EPAPER
Updated: June 11, 2025, 11:58 AM IST | Mumbai
کہا:اتنے قدیم اسٹیشن پر سہولتوں کا فقدان ، ٹرین خدمات بڑھانے اور دیگر مطالبات پر عدم توجہی۔ صبح کے اوقات میں ٹرینوں میں سوار ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
سینٹرل ریلوے کا یہ وہ پرانا اورمشہور ریلوے اسٹیشن ہے جہاں سے یومیہ ہزاروں مسافر اپنی منزل تک پہنچتے ہیں۔ یہاں کے مسافروں کی شکایت ہے کہ ان کی سہولت کی خاطر ریلوے انتظامیہ کی جانب سے توجہ نہیں دی گئی۔ فی الوقت جو کچھ ہلچل دکھائی دے رہی ہے وہ ۹؍ جون کو ہونے والا دلخراش حادثہ ہے۔ جیسے جیسے یہ حادثہ عوام کے ذہن سےمحو ہوتا جائے گا، ریلوے انتظامیہ کا اعلان بھی سردخانے میں ڈال دیا جائے گا۔ مسائل سے متعلق ممبرا سے روزانہ سفر کرنے والے چند مسافروں سے کی گئی بات چیت ذیل میںدرج کی جارہی ہے۔
ٹرینوں میں سوار ہونا مشکل ہوتا ہے
ایڈوکیٹ عبداللہ نے کہاکہ ’’ممبرا کی آبادی ۱۰؍لاکھ سےزائد ہے اوربڑی تعداد میںلوگ ٹرینوں سے پڑھائی ،دوائی اور روزگار کیلئے سفر کرتے ہیں مگر صبح کے اوقات میں۷؍بجے سے ساڑھے ۹؍بجے تک ٹرینوں میںسوار ہونا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ ممبراواسیوں کا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کےحل کے لئے کئی بار ریلوے افسران سے ملاقاتیں کی گئیں اور دیوا سے ٹرینیں چلانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن ریلوے انتظامیہ نے یہ کہہ کر نظر انداز کردیا کہ یہاں کارشیڈ نہیں ہے، کار شیڈ کلیان میں ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’اگر دیوا سے ٹرینیںچلائی جائیں تو بھیڑبھاڑ بھی کم ہوگی اور ممبرا والوں کو سہولت ہوگی کیونکہ کلیان، امبر ناتھ اور دیگر اسٹیشنوں سے آنےوالی ٹرینیں پہلے سے اس قدر بھری رہتی ہیںکہ اس میں سوار ہونا ممکن نہیںہوتا۔ اسی طرح ممبرااسٹیشن پرپانی کا نظم تک نہیں ہے، کیا ہزاروں مسافروں کیلئے ریلوے کا یہی انتظام ہے۔‘‘
ڈی آرایم سے ملاقاتیں بے نتیجہ رہیں
دُرّیہ گھڑیالی نے کہاکہ ’’ ممبرا ریلوے اسٹیشن پر سہولتوں کے فقدان اور مسافروں کے مسائل پر ڈاکٹر فیضی کے ہمراہ ہم لوگوں نے متعددمرتبہ ڈویژنل ریلوے منیجر(ڈی آر ایم) سے ملاقات کی اور انہیں میمورنڈم دیا ،مگرکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ممبرا کیساتھ ریلوے انتظامیہ اورریاستی حکومت کی جانب سے ہمیشہ سوتیلا سلوک کیا گیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ’’ ممبرا میں سب سے بڑا مسئلہ مسافروں کی کثرت کے حساب سے ٹرینوں کی کمی اورفاسٹ ٹرینوں کا نہ روکا جانا اور اکثر ٹرینوں کا تاخیر سےچلایا جانا ہے ۔ برائے نام سیمی فاسٹ ٹرینیںرکتی ہیں ،جس سے کوئی فائدہ نہیںہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بڑےحادثے پر ریلوے انتظامیہ نیند سے بیدار ہوتا ہے، شور مچایا جاتا ہے،طرح طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیںلیکن جیسے ہی وہ حادثہ عام آدمی کے ذہن سے محو ہونے لگتا ہے ریلوے انتظامیہ پھر سوجاتا ہے۔ ورنہ اگرواقعی مسائل پرتوجہ دی گئی ہوتی اورجہاں جہاں موڑ ہے وہاں ٹرینوں کی رفتار کم رکھی گئی ہوتی تو شاید ۴؍قیمتی جانیں ضائع نہ ہوتیں۔‘‘
محفوظ خان نے کہا کہ ’’میں ممبرا سے مسجد بندر اورکبھی سی ایس ایم ٹی کاسفر کرتا ہوں لیکن اندازہ ہوتا ہے کہ مسائل ہی مسائل ہیں۔ ممبرا سینٹرل ریلوے کا ایسا اسٹیشن ہے جسے ریلوے انتظامیہ نے لاوارث بناکررکھا ہے۔۱۰۰؍سال سے زائد قدیم اس اسٹیشن پرصبح وشام کے اوقات میںمحض ۲؍سیمی فاسٹ ٹرینیں روکی جاتی ہیں جبکہ مسافر ہزاروں ہیں۔اہم بات یہ ہےکہ یہ دونوں ٹرینیں بھی ہمیشہ ۲۰؍ منٹ، کبھی نصف گھنٹہ اور کبھی اس سے زیادہ تاخیر سے پہنچتی ہیںاس سے مجبوراً مسافر دھیمی رفتار کی ٹرینیں پکڑ لیتے ہیں۔ اسی طرح اسٹیشن پر خود کازینہ لگایا تو گیا ہے اور لفٹ کی تنصیب بھی کی گئی ہے مگربے ڈھنگے انداز میں جس سے معمر افراد اس کا مشکل سے فائدہ اٹھاپاتے ہیں۔ شکایت کرنے پر اسٹیشن سپرنٹنڈنٹ ایسا باور کراتا ہے جیسے ہم نے ہی کوئی جرم کیا ہو۔ اس لئے کئی طرح کی اصلاح کی ضرورت ہے تبھی مسافروں کو سہولت ملے گی اور حادثات کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔‘‘
دیوا تا ممبرا علاقوں کو بالکل الگ تھلگ کردیا گیا
شہباز خان نے بھی تقریباً یہی شکایات کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ممبرا سے یومیہ سی ایس ایم ٹی تک سفر کرتا ہوں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ دیوا سے ممبرا تک کے علاقے کوبالکل الگ تھلگ کردیا گیا ہے، ان اسٹیشنوں پرسہولتوں کا فقدان ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کسی حادثے کے بعدریلوے انتظامیہ جاگتا ہے مگر وقتی طور پر، اس کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا ہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔‘‘