Inquilab Logo

مونگیر لوک سبھا حلقے میں للن سنگھ کی کشتی ڈانواڈول

Updated: April 25, 2024, 10:55 AM IST | Qutbuddin Shahid | Mumbai

آر جے ڈی نے یہاں سے۱۷؍ سال تک جیل میں رہنے والے اشوک مہتو کی بیوی کو ٹکٹ دیا ہے جنہوں نے ابھی اسی سال مارچ میں شادی کی ہے، مہتو کو یہاں کے پسماندہ طبقات میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے۔

RJD candidate Anita Devi and JDU candidate Lalan Singh. Photo: INN.
آر جے ڈی کی امیدوار انیتا دیوی اور جے ڈی یو امیدوار للن سنگھ۔ تصویر: آئی این این۔

نتیش کمار کے آخری بار پالا بدلنے سے کچھ دنوں قبل اُس وقت کے جے ڈی یو سربراہ راجیو رنجن سنگھ عرف للن سنگھ نے پارٹی سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دیا تھا کہ وہ اپنے انتخابی حلقے پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان سے استعفیٰ نہیں لیا گیا ہے بلکہ انہوں نے از خود استعفیٰ دیا ہے تاکہ وہ اپنے انتخابی حلقے میں وقت دے سکیں۔ سچائی کچھ دنوں بعد سامنے آگئی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اُس وقت ان کے دعوے پرکسی کو یقین نہیں آیا تھا۔ اب جبکہ لوک سبھا الیکشن کااعلان ہوچکا ہے اور للن سنگھ کو ایک بار پھر اُن کے انتخابی حلقے مونگیر سے ٹکٹ مل چکا ہے، ان کی کشتی ڈانواڈول دکھائی دے رہی ہے۔ مونگیر کو ایک زمانےمیں جے ڈی یو کا ایک مضبوط قلعہ تصور کیا جاتا تھا، لیکن اب اس تصور کی قلعی اُتر چکی ہے۔ ۲۰۲۰ء میں ہونےوالے اسمبلی انتخابات میں اس لوک سبھا حلقے کے تحت آنے والی ۶؍ اسمبلی سیٹوں میں جے ڈی یو کے ہاتھ ایک بھی سیٹ نہیں لگی تھی۔ اس کے برعکس بی جے پی کو ۳؍، آر جے ڈی کو ۲؍ اور کانگریس کو ایک سیٹ پرکامیابی ملی تھی۔ اگر ہم ووٹوں کی شرح کی بات کریں تو آر جے ڈی کو سب سے زیادہ ۲۱ء۵؍ فیصد ووٹ ملے تھے جبکہ بی جے پی اور جے ڈی یو کے حصے میں باالترتیب ۱۹ء۹؍ اور ۱۴ء۹؍ فیصد ووٹ آئے تھے۔ اسی طرح کانگریس پر ۱۶؍ فیصد رائے دہندگان نے اعتماد کااظہارکیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر ایل جے پی کو ۷؍ فیصد سے زائد ووٹ ملے تھے۔ ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۹ء میں یہاں سے للن سنگھ کامیاب ہوئے تھے جبکہ ۲۰۱۴ء میں ایل جے پی کی وینا دیوی جیتی تھیں۔ اس سے قبل ۱۹۹۸ء اور۲۰۰۴ء میں یہ سیٹ آر جے ڈی کے پاس رہی تھی۔ خیال رہے کہ یہ وہی تاریخی لوک سبھا حلقہ ہے جہاں ۱۹۶۴ء اور ۱۹۶۷ء میں مشہور سوشلسٹ لیڈرمدھو لمئے کامیاب ہوئے تھے۔ 
لوک سبھاانتخابات کیلئے بی جے پی، جے ڈی یو اور ایل جے پی میں بھلے ہی اتحاد ہے لیکن اس حلقے میں آر جے ڈی اور کانگریس اتحاد کی پوزیشن ۲؍ وجوہات سے کافی مستحکم بتائی جارہی ہے۔ اول یہ کہ نتیش کمار اپنی ساکھ بری طرح کھوچکے ہیں، جس کا خمیازہ ان کے امیدواروں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ خاص کر للن سنگھ جیسے امیدواروں کو بی جے پی سے ایک فاصلہ بنا کر چلتے ہیں اور خود کو سیکولر کہتے رہے ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آر جے ڈی نے جس امیدوار کو موقع دیا ہے، سیاسی نہ ہوکر بھی اس کی پکڑ بہت مضبوط ہے اور حلقے میں ذات پات کی انتخابی مساوات بھی اس کے حق میں ہے۔ 
آر جے ڈی نے یہاں سے اشوک مہتو کی بیوی انتیا کماری مہتو کو ٹکٹ دیا ہے۔ اشوک مہتو کا تعلق۲۰۰۰ء کے آس پاس بہار کے نوادہ، شیخ پورہ، جموئی اور آس پاس کے علاقوں میں سرگرم’مہتو گروپ‘ سے رہا ہے، جو پسماندہ ذاتوں کا کٹر حامی تھا۔ ۲۰؍ سال قبل بہار میں اعلیٰ اور پسماندہ ذاتوں کے درمیان کئی خونیں وارداتیں ہوئی تھیں۔ اشوک مہتو کو بھلے ہی ۱۷؍ سال جیل میں رہنا پڑا ہو اور انہیں مافیا کہا جاتا ہو لیکن پسماندہ طبقات میں انہیں ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہے۔ بہار میں اعلیٰ اور پسماندہ طبقات کے درمیان اس تصادم پر ڈیڑھ سال قبل ایک ویب سیریز ’خاکی: دی بہار چیپٹر‘ بھی بنائی جاچکی ہے۔ دسمبر ۲۰۲۳ء میں سپریم کورٹ سے اشوک مہتو کو ضمانت ملی ہے لیکن ذیلی عدالت نے چونکہ انہیں خاطی قرار دیا ہے، اسلئے وہ خود الیکشن نہیں لڑ سکتے، اسلئے انہوں نے اپنی بیوی کو انتخابی میدان میں اتار دیا ہے۔ انتیا دیوی سے انہوں نے ابھی اسی سال مارچ میں شادی کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شادی انہوں نے لالو یادو کے کہنے پر ہی کی ہے تاکہ اس بہانے میں وہ سیاست میں اپنے قدم جماسکیں۔ انیتا دہلی کے ایک ریلوے اسپتال میں چیف فارماسسٹ کی سرکاری نوکری کررہی تھیں لیکن الیکشن لڑنے کیلئے انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ 
ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس شادی نے لوک سبھا حلقے میں انتخابی مساوات کو آر جے ڈی کے حق میں کردیا ہے۔ اشوک مہتو کرمی ذات سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ان کی اہلیہ انتیا دیوی کا تعلق دھانوک ذات سے ہے۔ اس حلقے میں ان دونوں برادریوں کی تعداد بالترتیب ڈیڑھ لاکھ اور ایک لاکھ ۴۰؍ ہزار ہے۔ اسی طرح یادو برادری کی تعداد تقریباً ۳؍ لاکھ اور مسلم ووٹرس کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کرمی ووٹوں پر نتیش کمار اوراشوک مہتو میں سے کون زیادہ اثر اندازہوپاتا ہے اور کون کتنے ووٹوں کو اپنے پالے میں کرپاتا ہے۔ بہار کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ مونگیر میں انتخابی نتائج کا بہت سارا دارومدار کرمی ووٹوں کے اِدھراُدھر ہونے پر ہوگا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK