معمر بی جےپی لیڈر نے نام لئے بغیر مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا، اقتدار پر جمے رہنے کیلئے آئینی التزامات کےغلط استعمال کی مذمت کی
مرلی منوہر جوشی نے دہلی میں ایک پروگرام کے دوران اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تصویر:آئی این این
بی جےپی کے سینئر لیڈر مرلی منوہر جوشی نے الیکشن کے وقت پیسوں کی تقسیم کو’’ووٹ خریدنے‘‘ کے مترادف قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے ملک میں حقیقی معاشی اور تمام ریاستوں کیلئے متوازن ترقی کی وکالت کی اور متنبہ کیا کہ الیکشن کے وقت ’’پیسوں کی تقسیم‘‘عوام کی فلاح ہوگی نہ ملک ترقی کرےگا۔ ریاستوں کے درمیان متوازن ترقی کیلئے ۹۱؍ سالہ لیڈر اور سابق مرکزی وزیر نے بامعنی نظام کی ضرورت پر زوردیا ۔ انہوں نے کہا کہ ریاستوں کے درمیان معاشی عدم مساوات نے جمہوری عمل میں حصہ لینے والے شہریوں کیلئے غیر مساوی حالات پیدا کر دیئے ہیں۔ انہوں نے فلاحی اسکیموں کے سیاسی استحصال پر تنقید کی اور کہا کہ الیکشن سے پہلے نقد رقوم کی منتقلی سماجی تعاون اور ووٹ خریدنے کے درمیان کی لکیر کو دھندلا کردیتا ہے۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں اہمیت کا حامل ہے جب این ڈی اے پر الزام لگ رہا ہےکہ اس نے بہار میں عین الیکشن سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران ڈیڑھ کروڑ خواتین کے کھاتوں میں’’مکھیہ منتری مہیلا روزگار یوجنا‘‘ کے نام پر ۱۰-۱۰؍ ہزار روپے منتقل کرکے الیکشن جیتاہے۔ مرلی منوہر جوشی نے اپنی تقریر میں حالانکہ مودی ، امیت شاہ یا موجودہ حکومت کا نام لینے سے گریز کیا مگر ان کی تنقید کی زد پر واضح طور پر حکمراں محاذ ہی تھا۔
بی جےپی کے سینئر لیڈر جنہیں مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد ’’مارگ درشک منڈل‘‘ میں ڈال دیا گیاہے، نے کہا کہ ’’ سوال یہ ہے کہ رقم عوامی فلاح کیلئے دی گئی یا ووٹ خریدنے کیلئے؟ سیاسی جماعتیں اسے واضح نہیں کریں گی۔ وہ اقتدار پر جمے رہنے کیلئے آئینی التزامات کرتی ہیں۔‘‘
مرلی منوہر جوشی جو بی جے پی کے بانی اراکین میں سے ہیں، نے نام لئے بغیر بہار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جیسے آج لوگ الیکشن سے پہلے تقسیم کی گئی رقم پر سوال کررہے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ یہ عوامی فلاح کیلئے تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ نہیں، یہ رقم ووٹ خریدنے کیلئے تھی۔‘‘ انہوں نے مختلف ریاستوں میں عدم مساوات کے خاتمے کیلئے ملک کو چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی وکالت کی اور کہا کہ موجودہ ریاستوں کو ایسی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا چاہئے جو آبادی کے لحاظ سے تقریباً ایک برابر ہوں اوران میں اسمبلی اور پارلیمانی کی تعداد بھی مساوی ہو۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اس کے بغیر ملک اپنی جمہوری ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے گا۔
انہوں نے حوالہ دیا کہ ’’ہر شہری کو ووٹ کا مساوی حق ہے لیکن کرناٹک، بہار، مہاراشٹر یا شمال مشرق میں رہنے والے لوگوں کی معاشی حیثیت میں بڑا فرق ہے۔‘‘ جوشی نے وضاحت کی کہ ’’کسی بھی شہری کے ووٹ کچھ معاشی طاقت بھی ہوتی ہے۔ ریگستانوں یا پہاڑوں میں رہنے والے شہریوں کے پاس وہ معاشی طاقت نہیں ہوتی۔‘‘ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ ملک کے آئین نے تمام شہریوں کو’’ معاشی اور سیاسی انصاف‘‘ ضمانت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’معاشی برابری کے بغیر سیاسی حقوق کا حقیقی استعمال ممکن نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’جب ریاستوں کی آبادی اور معاشی طاقت تقریباً برابر ہو جائے گی توپارلیمنٹ حقیقی طور پر سب کے مفاد میں کام کر سکے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر ایسا نہ ہوا جمہوریت اور عوامی کی فلاح کیلئے پابند عہد ہونے کے باوجود ہم حقیقی جمہوریت نہیں بن سکیں گے۔ ہم عوام کی حقیقی خدمت نہیں کرسکیں گے۔‘‘ انہوں نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’الیکشن میںپیسے بانٹ دینے سے ترقی ہوگی نہ اس سے عوام کی فلاح و بہبود ہی ہوسکے گی۔‘‘