Inquilab Logo

مسلم ممالک جی ڈی پی کا ایک فیصد ٹیکنالوجی پر صرف کریں

Updated: March 11, 2023, 12:13 PM IST | Karachi

او آئی سی سے منسلک ماہرین نے مسلم ممالک کو آگاہ کیا کہ اقتصادی ترقی کیلئے جدت اور نئی تحقیق میں سرمایہ کاری کرنا ضروری ہے

According to experts, there is a need to close the gap between academia and industry (file photo).
ماہرین کے مطابق اکیڈمیوں اور صنعتوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی ضرورت ہے ( فائل فوٹو)

 اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم (اوآئی سی) سے وابستہ ماہرین نےاسلامی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ  اپنی اپنی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا کم ازکم ایک فیصد سائنس و ٹیکنالوجی کی تحقیق پر خرچ کریں کیونکہ خوشحالی اور خودانحصاری کا ہدف سائنسی تحقیق سے ہی حاصل ہوسکتا ہے۔بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم(آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی میں منعقدہ اسلامک ورلڈاکیڈمی آف سائنس (آئی اے ایس) کے ۲۴؍ ویں۲؍ روزہ سائنسی کانفرنس کے آخری روز ماہرین نے او آئی سی رکن ممالک پر زور دیاہے کہ معاشرتی واقتصادی ترقی کیلئے وہ اپنے جی ڈی پی کاکم از کم ایک فیصدتحقیق، سائنس ، ٹیکنالوجی اور جدت میں سرمایہ کاری کریں۔    اس کے علاوہ انھوں نے تجسس، تخلیق اور مسائل کے  ٖحل کیلئے  او آئی سی رکن ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ تحقیق پر مبنی تعلیم کو اختیار کریں۔
 ان خیالات کا اظہارمختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہرین نے ایک روز قبل آئی اے ایس کی ۲۴؍ ویں سائنسی کانفرنس کی اختتامی تقریب میں سفارشات پیش کرتے ہوئے کیا۔ کانفرنس کی اختتامی تقریب سے آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے سربراہ اور کامسٹیک کے کوآرڈی نیٹر جنرل پروفیسرمحمد اقبال چوہدری اور آئی اے ایس کے صدرپروفیسر عدنان بدران  (اُردن) سمیت کئی ماہرین خطاب کیا۔ کانفرنس کا انعقاد اسلامک ورلڈاکیڈمی آف سائنس، کامسٹیک اسلام آباد اورآئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے باہمی اشتراک سے ہوا جس میں پاکستان، اُردن، ملائیشیا، ایران، فلسطین،  بنگلہ دیش، مراکش، ترکی، اُزبکستان، جرمنی، امریکہ، سنگاپور اور آسٹریلیا سے سائنسدان اور محققین نے شرکت کی۔
 تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اقبال چوہدری نے نشاندہی کی کہ او آئی سی رکن ممالک میں اکیڈمیوں اور صنعتوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مشترکہ آر اینڈ ڈی سماجی اور اقتصاری ترقی کا باعث بنے۔ انھوں نے کہا مسلم ممالک کو ضرورت ہے کہ وہ ٹیکنالوجی پارکس اور انکیوبیٹر بنائیں تاکہ تحقیق اور جدت کی فراہمی کو کمرشل بنایا جاسکے اور نئے مواد اور کوالٹی کنٹرول میں تنوع کو بڑھایا جاسکے۔ انھوں نے کہا سائنس ایک زبان کی صورت ہے جو پوری انسانیت کو متحد کرتی ہے، سائنس کے ذریعے سے اقوام کے درمیان خلیج کو کم کیا جاسکتا ہے۔ پروفیسر اقبال چوہدری نے شرکاء کو کامسٹیک کے پروگرام اور اقدامات کے بارے میں بھی بتایا جس میں او آئی سی ریجن کیلئے سب سے بڑا ریسرچ فیلو شپ پرگرام  ہے۔
 پروفیسر عدنان بدران نے او آئی سی رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ اسلامک ورلڈاکیڈمی آف سائنس سے منسلک توانائی، پانی اورخوراک کی حفاظت کے پائیدار تکون کیلئے ایک کنسورشیم تشکیل دیں جو او آئی سی رکن ممالک خود انحصاری اور ایس ڈی جی کو پورا کرنے کیلئے معروف تحقیقی مراکز کے نیٹ ورک سے منسلک ہوں اور کامسٹیک پر زور دیں کہ وہ غیر ترقی یافتہ ممالک کے سائنسدانوں کی نقل و حرکت کی گرانٹ میں اضافہ کرے۔ انھوں نے او آئی سی رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ مستقبل کی نسلوں کیلئے غذائی تحفظ کے پائیدار تکون کے حصول کیلئے نجی شعبے کے ساتھ تعاون اور اشتراک کو مضبوط کریں۔ یاد رہے کہ او آئی سی مسلم ممالک کی بین الاقوامی تنظیم ہے جو ان کے معاشرتی اور کاروباری معاملے میں باہمی تعاون کیلئے کام کرتی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK