Inquilab Logo Happiest Places to Work

جے این یو سے لاپتہ ہونےوالے نجیب کی بوڑھی ماں کو بیٹا ملا نہ انصاف

Updated: July 01, 2025, 7:55 AM IST | New Delhi

سی بی آئی کی ناکامی پر عدالت کی مہر، دہلی کے کورٹ نے کیس بند کرنے کی اجازت دے دی، نئے شواہد ملنے کی صورت میں دوبارہ کھولنے کا امکان باقی

Najib`s mother protesting for her son. (File photo)
نجیب کی والدہ اپنےبیٹے کیلئے احتجاج کرتے ہوئے۔(فائل فوٹو)

دہلی کی ایک عدالت نے   جواہر لال نہرو یونیورسٹی  میں بھگوا عناصر  کے ساتھ جھگڑے کے بعد لاپتہ ہوجانےوالے طالب علم  نجیب احمد کو تلا ش کرنے میں سی بی آئی کی ناکامی پر مہر لگادی۔  عدالت  نے سی بی آئی کو کیس کو بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ 
نجیب ۱۵؍ اکتوبر۲۰۱۶ء کولاپتہ ہو ئے تھے۔ ایڈیشنل چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ جیوتی مہیشوری نے سی بی آئی کی کلوزر رپورٹ کو قبول کر لیا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ آزادی بھی دی  ہےکہ اگر اس معاملے میں کوئی نئی شہادت ملتی ہے تو کیس دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ سی بی آئی نے ۲۰۱۸ء میں نجیب کا سراغ لگانے کی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد تفتیش بند کردی تھی اور دہلی ہائی کورٹ سے اجازت ملنے کے بعد عدالت میں کلوزر رپورٹ پیش کی تھی۔ نجیب کی والدہ فاطمہ نفیس نے سی بی آئی کی اس رپورٹ کو عدالت میں چیلنج کیا تھا اور ان کے وکیل نے دلیل دی تھی کہ یہ ایک ’سیاسی کیس‘ ہے اور سی بی آئی اپنے ’آقاؤں کے دباؤ‘ میں  اسے بند کررہی  ہے۔
نجیب احمد جو جے این یو میں ایم ایس سی بایو ٹیکنالوجی کے طالب علم تھے، ۱۵؍اکتوبر۲۰۱۶ء کو یونیورسٹی کے ماہی-مانڈوی ہاسٹل سے لاپتہ ہو گئے تھے۔ اس سے ایک رات قبل ان کا کچھ طلبہ کے ساتھ جن کا تعلق مبینہ طور پر اکھل بھارتیہ ودیارتی پریشد (اے بی وی پی) سے تھا، جھگڑا ہوا تھا۔ سی بی آئی نے اپریل میں عدالت کو بتایا تھا کہ نجیب نے مبینہ طور پر اے بی وی پی سے منسلک طلبہ  حملے کے بعد صفدر جنگ اسپتال میں علاج سے انکار کر دیا تھا مگراسپتال میں نجیب سے متعلق دستاویز غائب تھے۔ تفتیشی افسر کے مطابق نجیب کو میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (ایم ایل سی) بنوانے کا مشورہ دیا گیا تھا، لیکن وہ اپنے دوست محمد قاسم کے ساتھ ہاسٹل واپس چلا گیا  اوردوسرے دن لاپتہ ہوگیا۔ 

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK