وکالت کے امتحان میں ۸۷؍ فیصدمارکس حاصل کئے، الیکٹریشین کی بیٹی سوپارہ گائوں کی پہلی مسلم وکیل بن گئی۔
EPAPER
Updated: July 13, 2025, 1:50 PM IST | Saadat Khan | Nala sopara
وکالت کے امتحان میں ۸۷؍ فیصدمارکس حاصل کئے، الیکٹریشین کی بیٹی سوپارہ گائوں کی پہلی مسلم وکیل بن گئی۔
یہاں کے تاریخی اہمیت کے حامل سوپارہ گاؤں کے واجہ محلہ کی بینجی مہوش عبدالرحمٰن نے وکالت کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرکے نہ صرف اپنا اور اپنے اہل خانہ کا نام روشن کیا ہے بلکہ گائوں کی پہلی مسلم خاتون وکیل بننے کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں مہوش نے ایل ایل بی کے امتحان میں ۸۷؍ فیصدمارکس سے امتیازی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی میں ٹاپ بھی کیا ہے۔ فی الحال وہ وہ وکالت کی پریکٹس کرنے کے ساتھ ایل ایم ایم کرنے کی تیاری کررہی ہیں۔ ممبئی کے مضافات میں واقع نالاسوپارہ کے نصف حصہ سوپارہ گائوں کے معروف سماجی کارکن بینجی رضوان محمد کی پوتی، مہوش نے انجمن خیرالاسلام اُردو ہائی اسکول نالاسوپارہ سے ۲۰۱۵ء میں ایس ایس سی ۸۴؍ فیصد سے، ایچ ایس سی آربی حارث جونیئر کالج سے ۸۰؍فیصد سے اور ۲۰۲۱ء میں اے ای کالسیکر کالج سے ۸۴؍فیصد نمبروں سے بی کام میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہوں نے وکالت کا امتحان ویرار کے ویوا کالج سے کامیاب کیا ہے جس میں انہوں نے ۸۷؍فیصد نمبر (سی جی پی ٹی ۹ء۲؍ )ملے ہیں ۔ اس کی وجہ سے وہ ممبئی یونیورسٹی اور ویوا کالج میں ٹاپ کر گئی ہیں۔
مہوش اب ایل ایل ایم کی تیاری کریں گی۔ وہ وسئی کورٹ کے علاوہ بامبے ہائی کورٹ میں بھی پریکٹس کرنےکی خواہشمند ہیں۔ وکالت کی تعلیم مکمل کرنے سےمتعلق دریافت کرنے پر مہوش نے نمائندۂ انقلاب کوبتایاکہ ’’میرا تعلق متوسط طبقہ سے ہے۔ میرے والد الیکٹریشین ہیں اور اس بات کامجھے شروع سے احساس رہا، اس لئے میں نےہمیشہ محنت سے پڑھنےپر دھیان دیا۔ سخت محنت کرکے معاشرہ میں منفرد شناخت بنانا، میرا نصب العین تھا۔ مالی دشواریوں کی وجہ سے میرا تعلیمی سفر ہمیشہ آزمائشوں بھرا رہا۔ اس دوران کئی مشکلیں آئیں لیکن میں نے اپنے اہل خانہ کی مدد سے ان پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ اس سفرمیں میرے دادا، دادی اور والدین ہمیشہ میرےساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہے۔ میں نے ہر جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ ‘‘ مہوش نے مزید کہا کہ اہل خانہ کے علاوہ واجہ محلہ جمعہ مسجد ٹرسٹ اورسدھا ایجوکیشنل سوشل اینڈ کلچرل آرگنائزیشن کی ممنو ن ومشکور ہوں۔ ان دونوں ٹرسٹوں نے اسکالر شپ دے کر میری مالی مدد نہ کی ہوتی تو یہ کامیابی مشکل تھی۔ مہوش کےبقول گریجویشن کےبعد اعلیٰ تعلیم کیلئے کس شعبہ کا انتخاب کیا جائے، یہ فیصلہ میرے لئےمشکل تھا کیوں کہ اس میں خرچ بہت تھا۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے میرے دادا جان ( رضوان محمد بینجی ) نے میرے رہنمائی کی اورمجھے وکالت کی ترغیب دی۔
مہوش کے والد عبدالرحمٰن کےمطابق ’’ میری بیٹی پڑھائی کےمعاملہ میں نظم و ضبط کی پابند ہے۔ ہم نے ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی اور جو ممکن ہوسکا وہ مہیا کیا۔ ‘‘ مقامی سماجی کارکن زبیر احمد بوٹکے نے بتایاکہ ’’ مہوش نے وکالت کا امتحان پاس کرکے سوپارہ گائوں اور ہمارے واجہ محلہ کی شان میں اضافہ کیاہے۔ ‘‘