ناسا کی ویب سائٹ پر آنے والے صارفین کا استقبال اس پیغام کے ساتھ کیا جارہا ہے: ”وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے، ناسا اس ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کر رہا ہے۔“
EPAPER
Updated: October 04, 2025, 6:04 PM IST | Washington
ناسا کی ویب سائٹ پر آنے والے صارفین کا استقبال اس پیغام کے ساتھ کیا جارہا ہے: ”وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے، ناسا اس ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کر رہا ہے۔“
امریکہ کے خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے اپنی ویب سائٹ (https://www.nasa.gov/) کو بند کردیا ہے اور اپنے مشنز کے بارے میں تمام اپ ڈیٹس روک دیئے ہیں۔ خلائی ایجنسی نے اس اقدام کے پیچھے وفاقی فنڈنگ کی کمی کا حوالہ دیا۔ جمعہ کو ویب سائٹ پر آنے والے صارفین کا استقبال اس پیغام کے ساتھ کیا گیا: ”وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈنگ کی کمی کی وجہ سے، ناسا اس ویب سائٹ کو اپ ڈیٹ نہیں کر رہا ہے۔“ یہ پیغام ویب سائٹ کے اوپری حصے میں لکھا ہوا ہے۔
ناسا کی ویب سائٹ اسکول کرنے پر ایک اور پیغام دکھائی دیتا ہے: ”حکومتی فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے ناسا فی الحال بند ہے۔ ملازمین، اضافی معلومات کیلئے nasa.gov/shutdown پر جا سکتے ہیں۔“ ناسا کا شٹ ڈاؤن، ادارے کے مارس ریکونیسینس آربٹر کے ۳۱/اٹلس نامی دم دار ستارے کی اہم تصاویر لینے سے ٹھیک پہلے سامنے آیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ میں شٹ ڈاؤن: حکومتی امور مفلوج، ڈیموکریٹک ریاستوں کے ۲۶؍ ارب ڈالر منجمد
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے ناسا کے ۲۰۲۶ء کے بجٹ کو ۸ء۲۴ بلین ڈالر سے کم کر کے ۸ء۱۸ بلین ڈالر کر دیا ہے۔ انتظامیہ نے تحقیقی ادارے کے سائنسی منصوبوں میں ۳۳ فیصد اور جاری مشنز کی فنڈنگ میں ۴۷ فیصد کی کٹوتی کی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ بجٹ میں کمی سے چاند اور مریخ سے جڑے منصوبوں سمیت اہم خلائی پروگراموں میں تاخیر ہوگی۔
انتظامیہ کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں نے سائنسدانوں اور خلاء کے شوقین افراد میں شدید غصہ پیدا کر دیا ہے، جنہوں نے خبردار کیا کہ اس اقدام سے خلائی تحقیق میں امریکہ کی قیادت کو سنگین دھچکے لگ سکتے ہیں۔ ناسا کے ایک انجینئر نے کہا کہ اس کی وجہ سے سیکوریٹی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے سینیٹ کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں خبردار کیا گیا تھا کہ بجٹ میں کمی سے خلاء بازوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
فنڈنگ میں کمی کی وجہ سے خدشات پیدا ہورہے ہیں کہ ناسا اپنی افرادی قوت میں ایک تہائی تک کمی کرسکتا ہے۔ ماہرین کو ڈر ہے کہ اس کے نتیجے میں خلائی ایجنسی کو اپنی تاریخ کی سب سے سنگین سست روی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔