Inquilab Logo Happiest Places to Work

وقف ترمیمی قانون اور دیگر مسائل پر مل جل کر آواز بلند کرنے کی ضرورت

Updated: May 05, 2025, 11:59 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے زیر اہتمام ساحل ہوٹل میں منعقدہ بین المذا ہب مذاکرے میں برادران وطن کی اہم شخصیات نے بھی حمایت کی یقین دہانی کرائی، خیالات کا اظہار کیا۔

Advocate Suresh Mane speaking during the discussion. Photo: INN.
مذاکرے میں ایڈوکیٹ سریش مانے اظہار خیال کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این۔

ممبئی: وقف ترمیمی قانون کے خلاف مختلف انداز میں مخالفت اور صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے اسی تعلق سے سنیچر کی شب ساحل ہوٹل میں ایک بین‌المذاہب مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ اس مذاکرے کا مقصد غیر آئینی وقف ترمیمی قانون کی خامیاں اور اس کے نقصانات بتانے کے ساتھ برادران وطن کو یہ سمجھانا، ان کی ذہن سازی کرنا اور ان کا تعاون بھی حاصل کرنا تھا کہ اگر اس پر روک نہ لگی تو کل وہ بھی زد پر ہوں گے، اس لئے مل جل کر لڑاجائے۔ اس موقع پر برادران وطن کی الگ الگ طبقے سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے کیا کہا، ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔ 
’’یہ سب کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے‘‘
 بھارتیہ سکھ مورچہ کے ذمہ دار ہروندر سنگھ نے کہا کہ حکومت آر ایس ایس کو ہر جگہ بٹھانا اور اس کے ذریعے نگرانی چاہتی ہے۔ اسی لئے وقف ترمیمی ایکٹ میں دو ہندو رکھنے کی شق خاص طور پر شامل کی گئی ہے۔ یہ تمام اداروں اور اقلیتوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ مودی اور شاہ تو صرف مہرے ہیں، اصل کام آر ایس ایس کررہی ہے۔ اس سے ہوشیار ہوجائیے۔ 
ریٹائرڈ آر ایس آفیسر اروند سون ٹکے نے کہا کہ وقف کی طرح بودھ وہار کے تعلق سے بھی یہی قانون لایا جارہا ہے۔ ابھی کمیٹی میں ۴؍ ہندو اور۴؍ بدھ ہیں مگر ۵؍ ہندو شامل کرنے کا منصوبہ ہے، اس سے نہ صرف توازن بگڑے گا بلکہ بدھ نمائندگی ختم ہوجائے گی۔ 
’’ہم سب اس لڑائی میں ساتھ ہیں ‘‘
سنویدھان بچاؤ کمیٹی کے سیکریٹری راجیو روٹے نے کہا کہ حکومت سنویدھان پر حملہ کررہی ہے اور تفریق کی سیاست کرتی ہے‌۔ ہم اس لڑائی میں آپ کے ساتھ ہیں، آپ خود کو اکیلا نہ سمجھیں۔ 
مہاراشٹر چرم کار سنگھٹن کی سربراہ منالی گاؤلی نے کہا کہ پورے دیش واسیوں کے مسائل یکساں ہیں۔ دراصل آر ایس ایس نے سوسال محنت کی، اب موقع ملا ہے تو وہ اپنے نظریات تھوپ رہی ہے۔ ان کو شکست دینے کے لئے مل جل کر لڑنا ہوگا، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ۔ 
ناری اتیاچار ورودھی منچ کی صدر سندھیا گوکھلے نے کہا کہ یہ لڑائی سب کی ہے، ہم سب ایک ہیں ‌۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قاسم رسول صاحب نے جس طرح تفصیلات رکھیں، میں سمجھتی ہوں اس سے بیشتر لاعلم ہوں گے‌۔ اس کے لئے اور بڑے پیمانے پر جلسہ کرکے عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے‌ تاکہ ہم سب اچھی طرح واقف ہوکر خود کو تیار کرسکیں۔ 
’’حکو‌مت آئینی حقوق سلب کرنا چاہتی ہے‘‘
سابق رکن اسمبلی ارجن ڈانگلے نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ آئین میں دیئے گئے حقوق سلب اور قانون کو کمزور کردیا جائے۔ آئین کی جگہ وہ منواسمرتی تھوپنا چاہتی ہے، ہمیں الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ 
’’حکو‌مت کی نگاہ آدیواسی اور عیسائیوں کی زمینوں پر ہے‘‘
بھارتیہ بہوجن الائنس کے سربراہ ایڈوکیٹ سریش مانے نے تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کرناٹک وغیرہ میں ہندو دیواسم بورڈ ہیں، اس کی نگرانی میں ۵؍ ہزار مندر ہیں مگر ان کمیٹیوں میں ایک بھی غیر مسلم رکن نہیں ہے، پھر وقف میں دو ہندو ممبر کی شق کیوں ؟ اصل میں یہ حکومت آئین کے خلاف ہے۔ چنانچہ اس کا ہر قدم اسی سمت ہوگا اور وہ ایسے ہی قانون بنائے گی۔ اسی طرح یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ حکومت کی نگاہ آدیواسیوں اور عیسائیوں کی زمینوں پر بھی ہے اور اس پر قبضہ کرنے اور کنٹرول میں لینے کا حکومت اپنا پلان تیار کرچکی ہے۔ جل، زمین اور جنگل کے قوانین میں بھی ترمیم کے ذریعے وہاں رہنے والوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب دلتوں پر مظالم‌ ہوتے ہیں تو وہ بابا صاحب کے ماڈل کے ذریعے اپنی لڑائی لڑتے ہیں مگر دوسروں کے پاس ایسا کوئی ماڈل نہیں ہے۔ منی پور میں اور کرناٹک میں چرچز پر ہونے والے حملوں کو بھی نمایاں کیا جائے۔ 
ایڈوکیٹ مانے نے مزید کہا کہ حکومت نے ذات برادری کی بنیاد پر مردم شُماری کا فیصلہ مجبوری اور دباؤ میں کیا ہے۔ ہمیں پولیٹیکل اور سوشل الائنس بناکر اس عوام مخالف حکومت سے لڑنے کی ضرورت ہے۔ 
’’عیسائیوں کی زمینوں کا بھی نمبر آچکا ہے‘‘
انٹر فیتھ ریلیجیس ڈائیلاگ کمیٹی کے سیکریٹری نے اسٹینلے فرنانڈیز نے انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ عیسائیوں کا نمبر بھی آچکاہے اور چرچوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔ ملک میں مسلمان۱۷؍ فیصد ہیں تو ان کی آواز سنائی دے رہی ہے، ہم دو فیصد ہیں اس لئے ہماری آواز نہیں آرہی ہے‌۔ اس حکومت کی تمام کارروائیاں اور اقدامات اقلیتوں خاص طور پر مسلم اور عیسائی مخالف ہیں اور نئے نئے قوانین کے ذریعے زمینوں کو مافیاؤں کے قبضے میں دینے کا منصوبہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج حالت یہ ہے کہ ملک کی۸۰؍ فیصد آبادی کو مفت راشن تقسیم کیا جارہا ہے۔ اس پر توجہ دینے اور عوام کی ترقی کے لئے کام کرنے کے بجائے ایسے غلط قوانین بناکر ایک طبقے کو پریشان کیا جارہا ہے۔ اس لئے تمام اقلیتوں کو ہوشیار ہوجانا چاہئے۔ اس مذاکرے میں بورڈ کے جنرل سیکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی اور ترجمان قاسم رسول الیاس کے علاوہ اراکین،ملی تنظیموں کے نمائندے اور برادران وطن کی کئی شخصیات نے شرکت کی اور برادران وطن کو متوجہ کیا کہ ایک دوسرے کا ساتھ دے کر ہم آئین کی اور اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK