بدھ کے شمارے میں شائع ہونےوالی پرینکا گاندھی کی تقریر سہواً ادھوری رہ گئی ہے۔ لوک سبھا میں کی گئی ان کی اس تقریر کا بقیہ حصہ یہاں پیش کیا جارہاہے:
EPAPER
Updated: December 10, 2025, 10:47 PM IST | New Delhi
بدھ کے شمارے میں شائع ہونےوالی پرینکا گاندھی کی تقریر سہواً ادھوری رہ گئی ہے۔ لوک سبھا میں کی گئی ان کی اس تقریر کا بقیہ حصہ یہاں پیش کیا جارہاہے:
بدھ کے شمارے میں شائع ہونےوالی پرینکا گاندھی کی تقریر سہواً ادھوری رہ گئی ہے۔ لوک سبھا میں کی گئی ان کی اس تقریر کا بقیہ حصہ یہاں پیش کیا جارہاہے:
مودی جی نے اپنی تقریر میں ۲۰؍ ا کتوبر(۱۹۳۷ء) کا جو خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ جواہر لال نہرو نے نیتاجی کو یہ چٹھی لکھی اور کہا کہ اس پر بحث ہونی چاہئے، وہ ادھورا تھا۔اس سے ۳؍ دن پہلے نیتاجی نے پنڈت جواہر لال نہرو کو ایک چٹھی لکھی تھی جس کا ذکر آپ کے وزیراعظم نےنہیں کیا۔( حزب اقتدار کی جانب سے ہنگامہ آرائی پر)، سن لیجئے ، کیا آپ نیتا جی کے الفاظ نہیں سننا چاہتے؟بنگال کا الیکشن بھی آرہا ہے۔ (کسی کے ذریعہ ٹوکے جانے پر)ہاں کوئی بات نہیں، ہم تو دیش کیلئے ہیں، آپ الیکشن کیلئے ہیں، ہم چاہے جتنے الیکشن ہاریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے اور آپ سے آپ کے نظریات سے لڑتے رہیں گے۔ ہم اپنی اس مٹی کیلئے لڑتے رہیں گےآپ ہمیں روک نہیں سکیں گے۔
اب سنئے سبھاش چندر بوس نے کیا لکھا تھا۔ ’’میرے پیارے جواہر، بحوالہ : وندے ماترم، ہمیں کلکتہ میں بات کرنی ہوگی ، آپ ورکنگ کمیٹی میں اس کو اٹھائیں ،ہمیں وہاں بھی بات کرنی ہوگی ۔ میں نے ڈاکٹرٹیگور کو لکھا ہے کہ وہ اس معاملے پر آپ سے گفتگو کریں، جب آپ شانتی نکیتن جائیں تو بات کرنا نہ بھولیں۔‘‘ یہ خط ۱۷؍ اکتوبر کو لکھا جاتا ہے، جواب میں ۲۰؍ اکتوبر کو نہرو جی جواب دیتے ہیں۔ اسی جواب کی ایک لائن وزیراعظم نے سنائی، باقی لائنیں کیوں نہیں سنائیں کہ ان میں نہرو جی کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وندے ماترم کے خلاف موجودہ مخالفت بڑی حدتک فرقہ پرستوں کی پیدا کردہ ہے۔ہمیں کسی بھی صورت میں فرقہ پرستی کے آگے نہیں جھکنا چاہیے۔ ہاں اگر کوئی حقیقی شکایت ہے تواسے دور کریں گے۔ میں نے ۲۵؍ تاریخ کی صبح کلکتہ پہنچنے کافیصلہ کیا ہے ۔اس سے مجھے وقت ملے گا کہ میں ڈاکٹر ٹیگور اور دوسرے دوستوں سے مل لوں۔‘‘ اس کے بعد نہرو کلکتہ جاتے ہیں اور ٹیگور سے ملتے ہیں۔اس کے اگلے ہی دن ٹیگور نے ایک چٹھی لکھی۔انگریزی میں لکھی گئی اس چٹھی کا ایک حصہ میں آپ کو سنا دیتی ہوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ (وندے ماترم کے) جو ۲؍بند ہمیشہ گائے جاتے رہے ہیں، ان کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ انہیں اگر نظم کے بقیہ حصے سے الگ کردیا جائےتو کوئی مشکل نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ جدوجہد آزادی میں وہی دو بند گائے جاتے رہے اور ان ہی دو بند نے قربانی دینے والوں کو حوصلہ دیا۔ اسلئے انہیں ایسے ہی گانا زیادہ بہتر ہوگا۔ بعد میں شامل کئے گئے بند کےفرقہ وارانہ معنی نکالے جاسکتے ہیں اس لئے انہیں گانا نامناسب ہوگا۔ اس کے بعد ۲۸؍ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے انہی دو بند کو قومی گیت قرار دیا۔ اس فیصلے میں مہاتما گاندھی، نیتاجی سبھاش چندر بوس، پنڈت نہرو،آچاریہ نریندر دیو جی، گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور،سردار پٹیل سب شامل تھے۔ ان تمام عظیم ہستیوں نے اس تجویز کی تائید کی۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ بھی سن لیجئے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد جب اسی گیت کے ان ہی ۲؍ بند کو ۱۹۵۰ء میں ڈاکٹر راجندر پرساد نے آئین ساز کونسل میں قومی گیت قرار دیا تو اس وقت بھی یہ تمام عظیم شخصیات موجود تھیں۔ ان کے ساتھ ڈاکٹر امبیڈکر اور حکمراں محاذ کے میرے ساتھیوں کے نیتا شیاما پرساد مکھرجی بھی تھے۔ مذکورہ ۲؍بند کو ہی قومی گیت قرار دیاگیا اور ان میں سےکسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
ویسے ان حقائق کے ساتھ ایک اور حقیقت بھی ہے جو میں یہاں بتانا چاہتی ہوں۔ ہم آج قومی گیت پر بات کررہے ہیں مگرقومی ترانہ بھی ایک بڑی نظم کا ہی حصہ ہی ہے۔ ان دونوں ’قومی گیت‘اور ’قومی ترانہ‘کو چننے میں ڈاکٹر ٹیگور کا اہم رول رہا ہے۔اس لئے وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ قومی گیت کو’’کاٹا گیا ہے‘‘ یہ اُن تمام شخصیات کی توہین ہے جنہوں نے ملک کیلئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ اس پر کیا جانے والا اعتراض اس ذہنیت کو بھی ظاہر کرتا ہے جو آئین کے خلاف ہے۔ کیا حزب اقتدار کے ہمارے ساتھی اتنے مغرور ہوگئے ہیں کہ اپنے آپ کو مہاتما گاندھی جی سے، رابندر ناتھ ٹیگور جی سے، راجندر پرساد جی سے، بابا صاحب امبیڈکر سے،مولانا آزاد جی سے ،سردار پٹیل سے اور سبھاش چندر بوس سے بڑا سمجھنے لگے ہیں؟(میں یہ اس لئے کہہ رہی ہوں) کیوں کہ وندے ماترم کو کاٹنے کاالزام لگا کر آپ پوری آئین ساز کمیٹی پر سوال کھڑے کررہے ہیں۔ اُس کے ہر لیڈر کو مجرم قرار دے رہے ہیں، یہ آئین ساز کونسل اور آئین پر کھلا حملہ ہے۔
جہاں تک نہرو جی کا تعلق ہے، جتنے سال سے آپ (مودی ) ملک کے وزیر اعظم ہیں، لگ بھگ اتنے سال نہرو جیل میں رہے ہیں، کس لئے؟ اس ملک کی آزادی کیلئے۔ اس کے بعد وہ۱۷؍ سال ملک کے وزیر اعظم رہے، آپ ان پر بڑی تنقید کرتے ہیں لیکن اگر انہوں نے اِسرو نہ بنایا ہوتا تو آج آپ کا منگل یا نہیں ہوتا، اگر ڈی آر ڈی او نہیں بنایا ہوتا تو تیجس نہ بنتا، آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم نہ بنائے ہوتے تو آج ہم آئی ٹی کے شعبے میں آگے نہیں ہوتے۔ اگر ایمس نہیں بنایا ہوتا ہم کورونا جیسے چیلنج کا سامنا کیسے کرتے؟اگر انہوں نے وہ ادارے نہ بنائے ہوتے جنہیں آج آپ بیچ رہے ہیں تو ’’وِکست بھارت‘‘ کیسے بنتا؟
پنڈت جواہر لال نہرو اس ملک کیلئے زندہ رہے اور ملک کی خدمت کرتے کرتے دم توڑا،پھر بھی میرا ایک مشورہ قبول کیجئے ۔ ہمارے وزیراعظم ۱۲؍ سال سے اس ایوان میں ہیں، میں صرف ۱۲؍ مہینوں سے ہوں، پھر بھی چھوٹی سی صلاح دیتی ہوں۔ حال ہی میں الیکشن میں انہوں نے ایک فہرست پیش کی تھی کہ اپوزیشن لیڈروں نےان کی کتنی توہین کی ہے۔ انہوں نے توہین کے ۹۰؍ یا ۹۹؍ معاملات کی فہرست تیار کی تھی۔ تو میں ان کو یہ صلاح دینا چاہتی ہوں کہ نہرو جی سے جتنی بھی شکایتیں ہیں یا آپ کی نظر میں انہوں نے جتنی بھی غلطیاں کی ہیں، ان کو جتنی بھی گالیاں دینی ہیں اور جتنی بھی توہین کرنی ہے اس کی بھی ایک فہرست بنا لیجئے۔ ۹۹۹؍ توہین یا ۹؍ ہزار ۹۹۹؍ توہین، جوبھی ہو، فہرست بنائیں، ہم وقت طے کرتے ہیں، جس طرح آج ہم نے ۱۰؍ گھنٹے وندے ماترم پر بحث کی ہے اسی طرح ۱۰؍ گھنٹے، ۲۰؍ گھنٹے، ۴۰؍ گھنٹے،جتنے گھنٹوں میں آپ کی یہ شکایت پوری ہو جائے اور آپ شانت ہوجائیں ، اتنے گھنٹوں کیلئے ہم بحث کرلیتے ہیں۔ اس کے بعد اس ایوان کا قیمتی وقت اُس کام کیلئے (استعمال) ہو جس کیلئے عوام نے ہمیں بھیجا ہے ،ان کے مسائل پر گفتگو ہو ۔ یعنی (نہرو کے تعلق سے ) جو کچھ بھی ہے ایک بار میں ختم کیجئے۔ ملک ایک بار میں سن لے کہ نہرو نے کیا کیا، اندرا نے راجیو جی نے کیا کیا،پریوار واد کیا ہوتا ہے، نہرو نے کون سی غلطیاں کیں،سب سنا لیجئے، پھر ختم کیجئے۔ا س کے بعد مہنگائی، بے روزگاری، خواتین کے مسائل، پی ایم او میں بیٹنگ ایپ کے بارے میں جو ہورہاہے، جو ایپسٹین فائلوں میں آپ کے وزیروں کے نام ہیں ان پر بات کریں گے۔