نیتن یاہو نے ’عظیم اسرائیل‘ کے منصوبے کا ’تاریخی و روحانی مشن‘ جاری رکھنے کا عہدکیا، ساتھ ہی غزہ میں نسل کشی کے دوران توسیع پسندانہ نظریے سے اپنی وابستگی کا بھی اعادہ کیا۔
EPAPER
Updated: August 13, 2025, 7:22 PM IST | Telaviv
نیتن یاہو نے ’عظیم اسرائیل‘ کے منصوبے کا ’تاریخی و روحانی مشن‘ جاری رکھنے کا عہدکیا، ساتھ ہی غزہ میں نسل کشی کے دوران توسیع پسندانہ نظریے سے اپنی وابستگی کا بھی اعادہ کیا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ ایک ’’تاریخی اور روحانی مشن‘‘ پر ہیں اور نام نہاد ’عظیم اسرائیل‘ (گریٹر اسرائیل) کے نصب العین سے بہت زیادہ وابستگی محسوس کرتے ہیں۔ اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے لیے مخصوص علاقے اور موجودہ اردن و مصر کے کچھ حصے بھی شامل ہیں۔ منگل کو اسرائیلی نشریاتی ادارے ۲۴ ؍نیوزکو دیے گئے ایک انٹرویو میں، جبکہ ان کی حکومت غزہ کے باقی ماندہ علاقوں میں قتل عام کو پھیلانے کی تیاری کر رہی ہے نیتن یاہو نے اپنے مشن کو ’نسلوں کا مشن‘‘قرار دیتے ہوئے کہا: ’’یہاں آنے کا خواب یہودیوں کی نسلوں نے دیکھا ہے اور ہمارے بعد آنے والی نسلیں بھی یہاں آئیں گی۔‘‘
واضح رہے کہ اصطلاح ’عظیم اسرائیل‘ ۱۹۶۷ء کی عرب-اسرائیل جنگ کے بعد سے اسرائیل اور اس کے مقبوضہ علاقوں (مشرقی یروشلم، ویسٹ بینک، غزہ، مصر کا جزیرہ نما سینا اور شام کا گولان پہاڑی علاقہ) کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔نیتن یاہو کی لیکوڈپارٹی کے نظریاتی پیش رو جیبوٹنسکی جیسے ابتدائی صیہونیوں نے بھی اس کا اطلاق موجودہ اردن پر کیا تھا۔انٹرویو کے دوران، سابق کنیسٹ رکن ’’شیرون گال‘‘نے نیتن یاہو کو ’عظیم تر اسرائیل‘ کی نقشہ کشی کرنے والا ایک تعویذ دکھایا۔ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس نصب العین سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں،نیتن یاہو نے جواب دیا: ’’بہت زیادہ۔‘‘ ’عظیم اسرائیل‘ کا تصور لیکوڈ کی سیاسی روایت کا بنیادی اصول ہے، جوقدامت پسند صیہونیت کی اساس ہے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی سرزمین پر مکمل قبضہ اور حماس کا خاتمہ اسرائیل کیلئے کس حد تک ممکن ہے؟
واضح رہے کہ نیتن یاہو نے بارہا فلسطینی ریاست کے قیام کی مخالفت کی ہے، اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی حکومت کی غیرقانونی بستیوں کی توسیع اسی نصب العین کی عملی شکل ہے، جو زمین پر حقیقی صورت اختیار کر رہی ہےاور ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کو ناممکن بنا رہی ہے۔کچھ تجزیہ نگار غزہ میں جاری نسل کشی کو اس منصوبے کو تیزی سے نافذ کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں، جبکہ ناقدین کے مطابق حکومت کا نقطہ نظر ’’زیادہ سے زیادہ زمین اور کم سے کم عرب‘‘ کی پالیسی پر عمل کرنا ہے۔نیتن یاہو نے منگل کو یہ بھی کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو محاصرے میں جکڑے غزہ سے نکلنے کا موقع دے گا، کیونکہ فوج ایک وسیع تر غارت گری کی تیاری کر رہی ہے۔ یاہو نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہاکہ فلسطینیوں کوغزہ سے نکلنے کی اجازت دیں گے۔
نیتن یاہو کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب غزہ کی صحت کی وزارت کا کہنا ہے کہ اکتوبر ۲۰۲۳ءکے بعد سے اب تک اسرائیلی افواج نے تقریباً ۶۱؍ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہیدکر دیا ہے۔ اسرائیل کے ذریعے امداد کی ترسیل پر پابندی کے سبب غزہ میں قحط کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے، جو مزید اموات کا سبب بن رہی ہے۔