Inquilab Logo Happiest Places to Work

غزہ کی سرزمین پر مکمل قبضہ اور حماس کا خاتمہ اسرائیل کیلئے کس حد تک ممکن ہے؟

Updated: August 13, 2025, 1:10 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

فلسطین کے دشمن اسرائیل اور دوست نظر آنے والے عرب ویورپی ممالک کا موقف حماس کے تعلق سے ایک ہی ہے مگر کیا فلسطینی عوام بھی اس بات کیلئے راضی ہوں گے؟

Several key Hamas leaders, including Yahya Sinwar, have been killed. Photo: INN
یحیٰ سنوار سمیت حماس کے کئی اہم لیڈران جاں بحق ہو چکے ہیں۔ تصویر: آئی این این

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ بہت جلد غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیں گے۔  دوسری طرف بیشتر عرب اور یورپی ممالک نے  مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کیلئے  ۲؍ ریاستی فارمولہ پیش کیا ہے یعنی فلسطین کو بھی اسرائیل کی طرح ایک آزاد ریاست تسلیم کیا جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔  اسرائیل فلسطینیوں کو دشمن ہے جبکہ عرب اور یورپی ممالک  فلسطین کے ہمدرد لیکن فلسطینی جدوجہد کی قیادت کرنے والی تنظیم حماس  کے تعلق سے دونوں کا موقف ایک ہی ہے۔ نیتن یاہو حماس کو پوری طرح ختم کرنا چاہتے تو یوپی اور عرب ممالک کا خیال ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے اور فلسطین کا مکمل کنٹرول بشمول غزہ فلسطینی اتھاریٹی کے ہاتھ میں دیدے۔  
  یاد رہے کہ غزہ اسرائیلی بمباری میںپوری طرح تباہ ہو چکا ہے اور فلسطینی عوام بمباری سے زیادہ وہاں بھوک سے مر رہے ہیں۔  اس بمباری کو روکنے اور بھوکوں تک کھانا پہنچانے کا نہ تو عرب ممالک  کے پاس کوئی منصوبہ ہے نہ ہی یورپی ممالک کے پاس۔ البتہ وہ  فلسطین کا آدھا حصہ جس پر یہودی قابض ہیں اسرائیل کو دے کر فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں ۔ یعنی فلسطینیوں کی زمین انہیں اس شرط پر ملے گی کہ وہ اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کو جائز تسلیم کر لیں۔ اس پر طرہ یہ کہ پوری زندگی فلسطینیوں کیلئے جدوجہد کرنے والی تنظیم حماس کو ختم کر دیا جائے ۔  حماس کے دشمن اسرائیل اور فلسطین کے ہمدر د عرب اور یورپی ممالک چاہتے ہیں کہ غزہ کنٹرول  بھی فسلطین اتھاریٹی کے ہاتھ آجائے جو امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے مطابق کام کرتا رہے۔  
 یاد رہے کہ ۲۰۰۷ء  میں حماس نے  فلسطین  کے الیکشن میں حصہ لیا تھا جس میں اسے مکمل اکثریت حاصل ہوئی تھی لیکن امریکہ نے اس کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد فلسطین کو اختیارات کے اعتبار سے ۲؍ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔  غزہ کا حصہ حماس کو دیدیا گیا اور  مغربی کنارے کو  فلسطین اتھاریٹی  کے حوالے کر دیا گیا۔ اس کے بعد  سے  وہاں یہی صورتحال ہے کہ غزہ پر پوری طرح  حماس کا اقتدار ہے اور مغربی کنارے پر فلسطین اتھاریٹی قابض ہے لیکن یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ  اسرائیلی نے یہودی بازآبادکاروں کی بستیاں بسائی ہیں وہ سب مغربی کنارے ہی میں بسائی ہیں ، غزہ  میں وہ اس طرح کی غاصبانہ سرگرمیاں انجام نہیں دے سکا۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین اتھاریٹی کو پسند کرتا ہے ۔ عالمی برادری اورعرب ممالک کا موقف اگر یہ ہے کہ حماس سے غزہ کا اختیار لے لیا جائے تو بالواسطہ اس کے معنی یہی ہوئے کہ غزہ پر بھی اسرائیلی تسلط کو آسان کر دیا جائے۔ کیونکہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ۲؍ ریاستی فارمولے کے تحت اگر فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا گیا تو  اسرائیل پر اس سرزمین پر قبضے کی کوئی کوشش نہیں کرے گا؟ وہاں کوئی بمباری نہیں  کر ے گا؟ 
 یاد رہے کہ فلسطینیوں کی نظر میں ۲؍ ریاستی فارمولہ بھی ظالمانہ ہے کیونکہ وہ پوری سرزمین فلسطین کی ہے۔ اسرائیل کا وہاں غاصبانہ قبضہ ہے۔  اول تو  ان سے پوچھے بغیر یہ فارمولہ نافذ کیا جا رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا امن  کے قیام کی خاطر کیا جا رہا ہو لیکن حماس  کو اقتدار سے بے دخل کرنا،  یا اسے ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا یہ کس قدر ممکن ہوگا؟ حماس نے کہہ رکھا ہے کہ وہ اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے جب تک کہ ایک آزاد فلسطین ریاست کا قیام عمل میں نہیں آجاتا جس کا دالحکومت یروشلم ہو۔  ایسی صورتحال میں جبکہ جنگ جاری ہے، صلح کا کوئی معاہدہ ہو نہیں پایا ہے۔  اسرائیل یہ کہہ رہا ہے کہ وہ غزہ پر مکمل طور پر قبضہ کر لے گا ، عالمی برادری کا حماس پر قدغن لگانے کی کوشش کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ اور اگر ایسی کوشش بھی کی گئی تو اس کیلئے عملی اقدامات کیسے ہوں گے؟ کیونکہ فلسطین کی جانب سے لڑائی حماس ہی کر رہا ہے ۔ اسرائیل نے جب بھی فلسطین پر حملہ کیا ہے مطلب حماس پر حملہ کیا ہے۔ اگر عالمی برادری بھی حماس کے خلاف   طاقت کا استعمال کرتی ہے تو مطلب ہوگا فلسطین کے خلاف طاقت کا استعمال ہو رہا ہے۔ ایسی صورت میں امن معاہدے اور آزاد ریاست کے تصور کے کیا معنی رہ جائیں گے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK