Inquilab Logo

انتيس نومبر سے ویانا میں جوہری مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہوگا

Updated: November 05, 2021, 10:37 AM IST | Tehran

ایران نے ان مذاکرات کو ’غیر قانونی اور انسانیت دشمن‘ پابندیوں کو ہٹانے کا ایک ذریعہ قرار دیا۔ امریکہ کے مطابق اگر ایران اس معاملے میں ’سنجیدہ ‘ ہے توہ بھی گفتگو کیلئے تیار ہے مگر گفتگو وہیں سے شروع ہو جہاں ختم ہوئی تھی۔ دونوں ہی حکومتوں کی جانب سے مذاکرات میں شرکت پر رضامندی

Will the Vienna talks yield any results this time (file photo)
کیا اس بار ویانا مذاکرات کو کوئی نتیجہ بر آماد ہوگا (فائل فوٹو)

 بالآخر ایران اور امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان التوا کا شکار جوہری مذاکرات دوبارہ شروع ہونے جا رہے ہیں۔ اس کیلئے ۲۹؍ نومبر کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا گیا ہے۔  مذکرات میں شامل ایرانی وفد کے سربراہ علی باقری نے اس کی اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ ایرانی حکومت نے مذاکرات  میں شرکت کیلئے ہامی بھرلی ہے۔   واضح رہے کہ  آسٹریا کے شہر  ویانا میں اس سال اپریل میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات شروع ہوئے تھے جس میں چین ، روس، فرانس اور برطانیہ نے بھی حصہ لیا تھا لیکن  جوہری معاہدے کے تعلق سے بعض شرائط پر اتفاق نہ ہونے کے سبب یہ مذاکرات روک دیئے گئے تھے۔ 
  ادھر بائیڈن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ ویانا میں دیگر فریقوں، برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، اور روس کے ہمراہ اس سلسلے میں ہونے والی ملاقات میں شرکت کرے گا۔بدھ کو  ٹویٹر پر علی باقری   نے کہا کہ’’ ایران نے ’غیر قانونی اور انسانیت دشمن پابندیوں کو ہٹانے کیلئے ۲۹؍نومبر کو ویانا میں مذاکرات میں شرکت کرنے پر  اتفاق کر لیا ہے۔‘‘ اُدھر امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے کہا کہ اگر ایران کے نمائندے سنجیدہ ہیں تو جلد ہی یہ معاہدہ طے پا سکتا ہے تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کو توقع ہو گی کہ مذاکرات وہیں سے شروع ہوں جہاں گزشتہ جون میں پہنچ چکے تھے اور پھر تعطل کا شکار ہوئے تھے۔
  ان مذاکرات میں تعطل کی ایک وجہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ حسن روحانی کی جگہ صدرکا عہدہ سنبھالنے والے ابراہیم رئیسی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی سخت گیر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک نے  مذاکرات کے تعلق سے خاموشی اختیار کر لی تھی۔  وہ دیکھنا چاہتے تھے کہ ابراہیم رئیسی اس معاملے میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔   واضح رہے کہ مغربی ممالک کئی ماہ سے اس بات کے منتظر ہیں کہ ایران ان مذاکرات میں دوبارہ شامل ہو۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ایران میں جوہری پیش رفت اب اصل معاہدے سے تھوڑی نہیں کافی زیادہ ہے اس  لئے اب کوئی معاہدہ ہونا ضروری ہے۔
  واضح رہے کہ  ۲۰۱۵ء میں ایران نے  انہی  ۵؍ ممالک کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے اس نے یورینیم کی افزودگی، اس کی کل مقدار، اور اس عمل میں استعمال ہونے والی مشینوں کے حوالے سے حدود کو تسلیم کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایران نے بین الاقوامی سطح پر ان چیزوں کی نگرانی پر بھی رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس کے بدلے ایران کے خلاف پابندیاں ہٹائی گئی تھیں۔یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے مطابق بالکل درست کام کر رہا تھا اور ایران اپنے وعدوں کی پاسداری بھی کر رہا تھا  کہ  ۲۰۱۸ء میں امریکہ کے اس وقت کے  صدر  ڈونالڈ ٹرمپ نے  اس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں۔ ان پابندیوں کے باعث ایران غیر ملکی بینکوں میں پڑے اپنے اربوں ڈالروں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ایران نے امریکہ کی معاہدے سے دستبرداری کے بعد سے یورینیم کی افزودگی کا عمل تیز کر دیا ۔ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی معیشت بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ایران کا کہنا ہے پہلے ہونے والے معاہدے سے معاشی فوائد حاصل نہیں ہو رہے تھے  اور وہ چاہتے ہیں کہ یورپی ممالک ایران پر امریکی دباؤ کو کم کروائیں۔یورپی ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، واشنگٹن اور تہران کے بیچ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ عالمی طاقتوں کا ماننا ہے کہ ایران ایک جوہری بم بنانا چاہتا ہے جبکہ ایرانی حکومت اس کی تردید کر چکی ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ معاہدہ قائم رہے اور اس کیلئے انھوں نے سست روی سے ہی سہی مگر ایک ایسا نظام بنا لیا ہے جو تہران تک ایسے امدادی سامان کیلئے ادائیگیوں میں آسانی پیدا کرے گا جن پر امریکی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتا۔ایران کیلئے یہ کافی نہیں ہے۔ ایرانی چاہتے ہیں کہ تیل اور دھاتوں جیسے ان کی معیشت کے اہم شعبے امریکی دباؤ سے آزاد ہو جائیں لیکن اس کام میں یورپی ممالک اُن کی کوئی مدد نہیں کر سکتے۔اب امریکہ چاہتا ہے کہ وہ پرانے معاہدے میں واپس لوٹ آئے اور ایران بھی پابندیاں ہٹوانا چاہتا ہے، مگر دونوں فریقوں کا کہنا ہے کہ سامنے والا پہلا قدم اٹھائے۔ واضح رہے کہ جس اسرائیل کے کہنے پر ڈونالڈ ٹرمپ نے  اس معاہدے کو ختم کیا تھا ، وہ اسرائیل اب بھی اس معاہدےکے خلاف ہے اور ایران کے خلاف جنگ کی تیاری کر رہا ہے  جس میں امریکہ کی رضامندی بھی شامل ہے۔ 

vienna Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK