آئی سی ایم آر کے مطابق ملک ہر سال خون کی خرابی سے متاثرہ ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ صرف مہاراشٹر میں ہر سال تقریباً ۸۰۰؍ سے ۹۰۰؍نوزائیدہ بچوں میں تھیلیسیمیا میجر کی تشخیص ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ مکمل طورپر قابل علاج مرض ہے
EPAPER
Updated: September 11, 2025, 10:07 PM IST | Mumbai
آئی سی ایم آر کے مطابق ملک ہر سال خون کی خرابی سے متاثرہ ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ صرف مہاراشٹر میں ہر سال تقریباً ۸۰۰؍ سے ۹۰۰؍نوزائیدہ بچوں میں تھیلیسیمیا میجر کی تشخیص ہوتی ہے۔ماہرین کے مطابق یہ مکمل طورپر قابل علاج مرض ہے
ممبئی سمیت ریاست کے دیگر اہم شہروں میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے ریاستی محکمہ صحت تشویش میں مبتلا ہے ۔ موروثی طورپر خون کی خرابی سے ہونے والا یہ مرض ریاست کے نظام صحت کیلئے سنگین چیلنج بنا ہوا ہے۔ انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کی ۲۰۲۳ء کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہر سال تھیلیسیمیا کے تقریباً ۱۰؍ سے ۱۲؍ ہزار بچے پیدا ہوتے ہیں جبکہ صرف مہاراشٹر میں ہر سال تقریباً ۸۰۰؍ سے ۹۰۰؍نوزائیدہ بچوں میں تھیلیسیمیا میجر کی تشخیص ہوتی ہے۔
یہ عارضہ ہیموگلوبن پیدا کرنے والے جین میں تبدیلی کی وجہ سے ہوتا ہے اور اس میں بچے کا جسم مناسب مقدار میں ہیموگلوبن پیدا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ نتیجتاً ایسے مریضوں کو زندگی بھر باقاعدگی سے خون کی منتقلی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس بیماری کے بارے میں عوامی سطح پر بیداری لانے کی ضرورت ہے ۔
ریاست میں ممبئی، پونے، ناگپور، ناسک اور کولہاپور جیسے اہم شہروں میں تھیلیسیمیاسے متاثر ہونے والے بچوںکی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔
نیشنل کونسل آف بلڈ ٹرانسفیوژن کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق مہاراشٹر میں خون کی منتقلی کی کل مانگ کا ۲۰؍فیصد سے زیادہ تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کیلئے ہے۔ ٹاٹا میموریل ، جے جے، کے ای ایم، ایس ایچ آئی وی اور ساسون اسپتال (پونے) میں تھیلیسیمیا کے شکار بچوں کے رجسٹریشن میں پچھلے ۳؍ سال میں مسلسل اضافہ ہوا ہے ۔
اس بیماری کے علاج کیلئے مہینے میں کم از کم دو بار خون کی منتقلی کی ضرورت ہوتی ہے اور جسم میں آئرن کی سطح کو خطرناک حد تک پہنچنے سے روکنے کیلئے آئرن چیلیشن تھیراپی لازمی ہے۔
ماہرین کے مطابق تھیلیسیمیا مکمل طور پر قابل علاج مرض ہے۔ اگر شادی سے پہلے خون کا ٹیسٹ کرایا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ آیا میاں بیوی تھیلیسیمیا کے جین کیرئیر ہیں یا نہیں تو بیمار بچے کی پیدائش سے بچا جا سکتا ہے۔ فی الحال ریاست میں پونے، ناگپور، اورنگ آباد اور ممبئی میں شادی سے پہلے کے اسکریننگ مراکز کام کر رہے ہیں۔
ریاست میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس بیماری کی بروقت تشخیص، سستا علاج اور شادی سے پہلے لازمی چیک اپ اس بیماری سے بچوں کو بچا سکتے ہیں۔ اگر صحت عامہ کے نظام نے اس کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو ریاست مہاراشٹر میں تھیلیسیمیا سے متاثرہونے والے بچوں کا معاملہ مزید سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔