Inquilab Logo

اسکالرشپ کیلئےمختص فنڈاستعمال نہ ہونے پرپرنسپل حضرات کوذمہ دار ٹھہرانے کی مخالفت

Updated: October 10, 2022, 11:12 AM IST | Shahab Ansari | Mumbai

ہیڈماسٹروںکا کہنا ہے کہ سرکاری اسکالرشپ کیلئے سالانہ آمدنی کی شرط سب سے بڑا مسئلہ ہےجس سے بیشتر طلبہ کوکوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

 اقلیتی  طلبہ کیلئے ’پری میٹرک اسکالر شپ‘ اور ’بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ‘ کیلئے مختص فنڈ  استعمال نہ ہونے پر اب اسکولوں کے پرنسپل حضرات کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا جس سے ان میں ناراضگی پائی جارہی ہے۔ پرنسپل حضرات کا کہنا ہے کہ ان اسکالرشپ اسکیموںکیلئے سالانہ محض ایک لاکھ اور ۲؍ لاکھ روپے آمدنی کی شرط رکھی گئی ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر طلبہ ان  سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ ’نیشنل اسکالرشپ‘ کی ویب سائٹ www.scholarships.gov.in پر مرکزی حکومت کی جانب سے مسلمان، عیسائی، بدھ، سکھ، جین اور پارسی  سماج  کے مالی اعتبار سے کمزور والدین کے بچوں کو اسکالر شپ دینے کیلئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔مرکزی حکومت کی ’پری میٹرک‘ اسکالرشپ اوّل تا دہم جماعت کے طلبہ (لڑکے اور لڑکیوں) کو اور’بیگم حضرت محل نیشنل اسکالرشپ‘ (صرف لڑکیوں کیلئے) نہم تا بارہویں جماعت کی طالبات کو دی جاتی ہے۔ مرکزی حکومت کی پری میٹرک اسکالرشپ کیلئے عرضی دینے کی آخری تاریخ ۳۰؍ ستمبر ہے جبکہ ’بیگم حضرت محل‘ اسکالرشپ کیلئے درخواست دینے کی آخری تاریخ ۳۱؍ اکتوبر ہے۔ مذکورہ  ۶؍ مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کیلئے مرکز کی اسکالرشپ اسکیم پورے ملک کے طلبہ کیلئے ہے۔  نہرو نگر میونسپل اسکول نمبر۲؍ کے ہیڈماسٹر جنید احمد محمد گلاب نے اس بارے میں کہا کہ اگرچہ اسکالر شپ کیلئے سالانہ آمدنی کی شرط کڑی ہے لیکن ہمارے یہاں ایسے طلبہ ہیں جو ان شرائط پر پورا اترتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ عام طور پر ایسے طلبہ کے والدین مزدوری وغیرہ کرتے ہیں اور انکم سرٹیفکیٹ بنانے میں ہی ڈھائی سے ۳؍ہزار روپے خرچ ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کیلئے بھاگ دوڑ میں ان کی چند روز کی آمدنی بھی چلی جاتی ہے جس کے بعد اگر ۵؍ہزار روپے ملتے ہیں تو تقریباً آدھی رقم اور روزگار کا نقصان برداشت کرنے پر لوگ اسکالرشپ چھوڑ دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ’’میرا تجربہ یہی ہے کہ عام طور پر والدین کی طرف سے ہی معاملہ رُک جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ’’ اب تک انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے جس میں ہیڈماسٹروں کو اس کیلئے ذمہ دار قرار دینے کی کوئی بات کہی گئی ہو۔ایک  اورہیڈماسٹر کا کہنا ہے کہ اسکیم کیلئے مختص فنڈ استعمال نہ ہونے کا ذمہ دار پرنسپل کو قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ پری میٹرک اسکالرشپ انہی طلبہ کو دی جاسکتی ہے جن کے کنبے کی سالانہ آمدنی ایک لاکھ روپے سے زائد نہ ہو جبکہ بیگم حضرت محل اسکالر شپ کیلئے کنبہ کی سالانہ آمدنی ۲؍ لاکھ روپے سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔ اتنی کم آمدنی کی شرط کی وجہ سے ہی ایک بڑا حصہ اسکالرشپ پانے والوں کے زمرے سے باہر ہوجاتا ہے۔
 واضح رہے کہ اسکالرشپ حاصل کرنے کیلئے جب کوئی طالب علم آن لائن درخواست دیتا ہے تو یہ اسکول کے پرنسپل کے پاس پہنچتی ہے۔ درخواست ملنے پر ہیڈ ماسٹر کی ذمہ داری ہوتی ہےکہ وہ تحصیلداریا کلکٹر کی جانب سے طالب علم کو جاری کئے گئے انکم سرٹیفکیٹ کی تصدیق کرکے ضلعی سطح کے افسر کو بھیج دیں۔ پرنسپل کے ذریعہ تصدیق شدہ درخواست کو عام طور پر ضلعی سطح کے افسر مرکزی حکومت کو بھیج دیتے ہیں جس کے بعد مرکزی حکومت کی جانب سے طالب علم یا اس کے والدین کے بینک اکائونٹ میں اسکالرشپ کی رقم بھیج دی جاتی ہے۔ تاہم پرنسپل کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بغیر انکم سرٹیفکیٹ کے وہ طالب علم کی درخواست کو آگے نہیں بھیج سکتے اور اکثر اوقات شہری علاقوں میں خاص طور پر ایک لاکھ روپے سے کم آمدنی کا سرٹیفکیٹ حاصل کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کیونکہ انکم  سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے افسر شہر میں زندگی بسر کرنے کے اخراجات کا اندازہ یہی لگاتے ہیں کہ یہاں ایک لاکھ روپے سے کم آمدنی میں زندگی گزارنا دشوار ہے اس لئے وہ آمدنی کا سرٹیفکیٹ بڑی مشکل سے جاری کرتے ہیں۔  پری میٹرک اسکالرشپ کے تحت اوّل تا چہارم جماعت کے طلبہ کو ۲؍ہزار روپے سے ۷؍ ہزار روپے تک سالانہ رقم مل سکتی ہے جبکہ چھٹی سے دسویں جماعت تک ۴؍ہزار روپے سالانہ رقم مل سکتی ہے۔ دوسری طرف بیگم حضرت محل اسکالر شپ کے تحت اگرچہ آمدنی کی شرط سالانہ ۲؍لاکھ روپے ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لئے ہر سال نئے سرے سے اسکالر شپ کی درخواست دینی ہوتی ہے اور انکم سرٹیفکیٹ اور دیگر ضروری دستاویز حاصل کرکے اسکالرشپ ملنے میں چند ہزار روپے بھی خرچ ہوجاتے ہیں ۔ اس  کے بعد اس اسکیم کے تحت نویں اور دسویں کی طالبات کو سالانہ ۵؍ہزار روپے اور ۱۱؍ویں اور ۱۲؍ویں کی طالبات کو سالانہ ۶؍ہزار روپے اسکالر شپ ملتی ہے جس کی وجہ سے بہت سے طلبہ اسکالرشپ  میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ اسکالر شپ انہی طلبہ کو ملتی ہے جنہیں امتحان میں کم از کم ۵۰؍ فیصد نمبرات حاصل ہوئے ہوں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK