Inquilab Logo

پاکستان: ججوں کو مشکوک مادہ کے ساتھ خط موصول، تفتیش جاری

Updated: April 04, 2024, 7:29 PM IST | Islamabad

پاکستان کے سینئرججوں کو منگل سے مشکوک سفید مادے کے ساتھ خط موصول ہو رہے ہیں جن میں پاکستان کے نظام انصاف پر تنقید کی گئی ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے ۴؍ ججوں جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ۵؍ ججوں کو اس طرح کےخط موصول ہوئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق ان خطوط کو تفتیش کیلئے بھیجا گیا ہے۔

Pakistan Supreme Court. Photo: X
پاکستان سپریم کورٹ۔ تصویر: ایکس

کستان کے سینئر ججوں کو منگل سے مشکوک سفید پاؤڈر کے ساتھ خط موصول ہو رہے ہیں۔ اس ضمن میں حکام کی جانب سے تفتیش کا اشارہ دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے داخل کی گئی ایف آئی آر کے مطابق منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے ۸؍ ججوں کو اسی طرح کے میل موصول ہوئے تھےجن میں انگریزی میں نوٹ لکھے ہوئے تھے۔ نوٹ میں ’’پاکستان کے نظام انصاف ‘‘ پر تنقید کی گئی تھی اور دوسرے دن، سپریم کورٹ کے ۴؍ ججوں، جن میں چیف جسٹس قاضی فیض عیسیٰ بھی شامل ہیں، اور لاہور ہائی کورٹ کے ۵؍ ججوں کو اسی طرح کے خط موصول ہوئے تھے۔ ان خطوط کے ساتھ مشکوک ’’زہریلا‘‘ مادہ بھی تھا۔ 
پولیس نے بتایا ہے کہ ’’تحریک ناموس پاکستان‘‘ نامی گروہ نے ان مشکوک خطوط کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اسلام آباد اور لاہور کے پولیس حکام نے بتایا کہ یہ خطوط اور ان میں موجود کانٹینٹ فورینسک اور سیکوریٹی ماہرین کے پاس تفتیش کیلئے بھیج دیئے گئے ہیں۔ تاہم، انتظامیہ نے اب تک یہ واضح نہیں کیا ہے کہ یہ مشکوک مادہ کیا ہے۔
اس معاملے میں ملوث پولیس حکام نے بتایا کہ ہم اپنی تفتیش کر رہے ہیں اور ہم تفصیلات ملتے ہی فوری معلومات فراہم کریں گے۔ خیال رہے کہ تحریک ناموس پاکستان ستمبر میں اس وقت منظر عام پر آیا تھا جب انتظامیہ نے بتایا تھا کہ انہیں پاکستان کے اسلام آباد میں ہائیکنگ ٹریل میں ایک مشکوک بیگ موصول ہوا ہے۔ اس بیگ میں خطوط، بندوق، دستی بم، بندوقیں ، گولیاں اورشہرکی حساس عمارتوں کے میپ رکھے ہوئے تھے۔
ان خطوط میں ملک کے نظام انصاف کو نشانہ بنایا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ ہم نے ججوں اور جرنلس کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ ججوں کو اس طرح کے مشکوک میل بھیجنے کا سلسلہ اسلام آباد کے ۶؍ ججوں کی جانب سے سپریم کورٹ کو خط لکھے جانے والے معاملے کے بعد سامنے آیا ہے۔ اسلام آبادکے ججوں نے اپنے خط میں الزام عائد کیا تھا کہ انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ملک کے عدالتی نظام میں مداخلت کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ججوں نے کہا تھا کہ آئی ایس آئی سیاسی طور پر نتیجہ خیز مقدمات میں ججوں کے فیصلوں کو متاثر کرنے کیلئے ان کے خلاف دھمکی آمیز تدابیر کا استعمال کر رہی ہےجن میں خفیہ سروائلینس اور ججوں کے خاندان کے لوگوں کو ٹوچراور اغواء کرنا شامل ہے۔ تاہم، آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج نے ان الزامات کا کوئی بھی جواب نہیں دیا ہے۔ 
حکومت نے اس معاملے کی تفتیش کیلئے یک رکنی کمیشن تشکیل دیاتھا۔ کمیشن کیلئے منتخب کردہ ریٹائرڈ جج نے یہ ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔بعد ازیں سپریم کورٹ نے ججوں کی جانب سے غیر معمولی الزامات کی تفتیش کرنے کیلئے ۷؍ ممبران پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: عیسائی روایات زبردستی نافذ نہ کی جائیں، آئینِ تمہید پڑھائی جائے: کیتھولک ادارہ

اس معاملے کی پہلی سماعت بدھ کو ہوئی تھی جس میں چیف جسٹس عیسیٰ نے کہا تھا کہ اگر عدلیہ کی آزادی کو خطرات لاحق ہوں گے تواس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔عدالت نے اس معاملے کی سماعت ۲۹؍ اپریل تک ملتوی کی تھی۔ 
کراچی کے ایک وکیل عبدل موئز جافری نے کہا کہ ججوں کو مبینہ زہریلے خطوط موصول ہوئے تھے۔ ان خطوط کے مطن اور مشکوک مادہ کے ساتھ یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ اس کے پیچھے کا مقصد کیا ہے اور ان ججوں کو اس طرح کے خط کیوں موصول ہو رہے ہیں۔ 
ایمان زیب مازاری حاضر، جو اسلام آباد میں ہیومن رائٹس کےو کیل ہیں، نے کہا کہ جوہیومن رائٹس وکیل کہ ان ججوں کو کیوں اس طرح ایمان زیب  ججوں کو مشکوک نے کہا تھا کہججوں کوموصول شدہ خط اصل ہوں یا دھوکہ ان کی تفتیش کی جانی چاہئے۔
اس حوالے سے لاہور پر مبنی وکیل ردا حسین نے کہا تھا کہ ججوں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر فوری اور سنجیدگی سےتوجہ دی جانے کی ضرورت ہے۔جب تک ججوں کو خوفزدہ کیاجا رہا ہے تب تک کوئی بھی نظام عدالت کارگر نہیں ہو سکتا۔ یہ ججوں کی قابلیت پر حملہ ہے کہ وہ بغیر کسی خوف کے مقدمات کا فیصلہ کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK