Inquilab Logo

ہمارے اتحاد کو سمجھنے کے لئے لوگوں کو جامعہ آنا ہوگا

Updated: January 14, 2020, 2:52 PM IST | Afroz Alam Sahil | New Delhi

برادرانِ وطن سے تعلق رکھنے والے جامعہ ملیہ اسلامیہ کےطلبہ پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے باوجود شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ڈٹ کر احتجاج کررہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ یہ رام رحیم کی لڑائی نہیں بلکہ آئین کو بچانے کی لڑائی ہے ، مودی جی یہاں آئیں اوریہاں کے لوگوں کو کپڑوں سے پہچانیں۔

جامعہ کے طلبہ کا احتجاج ۔ تصویر : انقلاب
جامعہ کے طلبہ کا احتجاج ۔ تصویر : انقلاب

پرانے دن لوٹ آئیں گے، جب ہندوؤں اور مسلمانوں کے دلوں میں محبت تھی۔ خواجہ صاحب اب بھی قومی مسلمانوں کے صدر ہیں۔ دوسرے بھی جوقومی جذبے والے مسلمان لڑکے ان دنوں علی گڑھ (ایم اے او کالج) سے نکلے تھے، وہ آج جامعہ کے اچھے طلباء اور کام کرنے والے بنے ہوئے ہیں۔ یہ سب صحارا کے ریگستان میں نخلستان کی طرح ہیں…‘‘۶؍ اپریل۱۹۴۷ء کو مہاتما گاندھی نے یہ باتیں نئی دہلی میں منعقدہ ایک ’پرارتھنا سبھا‘ میں اپنے خطاب کے دوران کہی تھیں۔ انہوں نے یہ بات ایسے وقت میں کہی تھی جب ملک میں نفرت کی فضا عروج پر تھی۔ تب بھی جامعہ کے لوگ اٹھے  اور ہر کسی کے زخموں پر مرہم لگایا۔ آج بھی جب ملک میں نفرت عروج  پر ہے تو اسی جامعہ کے طلباء ایک بارہندو- مسلم اتحاد کو مضبوط کرتے نظر آرہے ہیں۔
 جامعہ کے شعبۂ ہندی کی طالبہ چندا یادو کہتی ہیںکہ ’’شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کی شروعات جامعہ ہی سے ہوئی۔ اب جو لوگ سوشل میڈیا پر یہ کنفیوژن پھیلا رہے ہیں کہ جامعہ کے اس احتجاج میں صرف مسلم طلبہ شامل ہیںتو دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ یہ کنفیوژن پھیلا کون رہا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریہ سے متاثر ہیں جو ملک میں نفرت پھیلانا چاہتے ہیں۔ وہ جو ملک کو ہندو- مسلم میں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘یہ پوچھنے پر کہ آپ اس قانون کی مخالفت کیوں کررہی ہیں؟ اس سوال پرچندا کہتی ہیںکہ ’’ `یہ لڑائی رام رحیم کی نہیں ہے، یہ لڑائی ملک کے آئین کو بچانے کے لئے ہے۔ یہ لڑائی ہم اپنے آئین کو `سنگھیوں سے بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں جو منوسمرتی کو آئین بنا دینا چاہتے ہیں۔ `‘‘
 بتادیں کہ جامعہ کی تین لڑکیوں کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ ان ۳؍ لڑکیوں میں ایک چندا یادو بھی ہیں۔ جامعہ کی لڑکیوں کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی جس میں لڑکیاں ایک لڑکے کو پولیس کی لاٹھیوں سے بچاتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ بچانے والی ان لڑکیوں میں چندا یادو بھی شامل ہیں۔  چندا کو شدید شدید چوٹیں آئیں، اس کے باوجود، چندا جامعہ احتجاج کی مستقل طور پر قیادت کررہی ہیں۔
 جامعہ سے جنڈر اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرنے والے راہل کپور کا کہنا ہے کہ ’’میں پہلے دن سے ہی اس قانون کے خلاف احتجاج میں شامل ہوں۔ حکومت چاہے ہمیں جتنا  بانٹنے کی کوشش کرے لیکن کم سے کم جامعہ میں تعلیم حاصل کر رہے طلبہ کو کبھی نہیں بانٹ سکتی۔ میں تو کہتا ہوں کہ مودی جی جامعہ آئیں اور یہاں کے لوگوں کو کپڑوں سے پہچانیں۔ ہمارے اتحاد کی مثال سمجھنے کے لئے لوگوں کو جامعہ آنا ہوگا۔ آکر دیکھیں کہ صرف ہندو اور مسلمان ہی نہیں، ہمارے سکھ اور عیسائی بھائی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ راہل بتاتے ہیں کہ ’’تقریباً ایک لاکھ۲۰؍ ہزار افراد نے ہماری آن لائن پٹیشن پر دستخط کئے ہیں۔ اس پر دستخط کرنے والوں میں دیگر مذاہب کے لوگ زیادہ ہیںتو یہ لڑائی بالکل بھی مسلمانوں کیلئے نہیں ہے۔ یہ لڑائی  اکثریتی فرقے ہندوؤں کے لئے بھی ہے۔ بی جے پی کے ہندوتوا سے اس ملک کا بیڑا غرق ہونے والا ہے، اس لئے ہمیں اس ہندوتوا سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ ہمارا ہندو مذہب نفرت کی نہیں بلکہ زمین میں محبت بڑھانے کی تعلیم دیتا ہے۔‘‘
 جامعہ میں زیرتعلیم چندن کمار کہتے ہیں کہ ’’مودی سرکار پورے ملک میں جاری اس تحریک کو ہندو مسلم کا رنگ دینا چاہتی ہے لیکن یہ صرف مسلمانوں کی لڑائی نہیں ہے، یہ صرف آسام کی ثقافت کو بچانے کے لئے لڑائی نہیں ہے، یہ کسی ایک زبان کے بولنے والے یا کسی ایک خطے کے لوگوں کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ ملک کے آئین کو بچانے کی لڑائی ہے۔‘‘
 چندن بھی۱۵؍دسمبر کو پولیس کی وحشیانہ کارروائی کا شکار  ہوئے تھے۔ ہاتھ پیر کے علاوہ  سر پربھی شدید چوٹیں آئیں ہیں۔ یہی نہیں، چندن کمار ان ۷؍ افراد میں سے ایک ہیں جن کے خلاف دہلی پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔
 جامعہ کے شعبہ اکنامکس کے وشال پرساد بتاتے ہیں کہ ’’ہم اس پوری تحریک کو ہندو مسلم کے چشمے سے بالکل بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جب ہمارے ملک کی یکجہتی اور سالمیت پر حملہ کیا جارہا ہے  تو ہماری جامعہ نہ صرف اس کے خلاف کھڑی ہے بلکہ اس کا بھرپور مقابلہ بھی کررہی ہے۔ مجھے پوری امید ہے کہ جیت ہماری ہی ہوگی۔‘‘
 جامعہ میں بی اے ایل ایل بی کرنے والے سویش ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ ’’عام لوگوں میں یہ بھرم ہے کہ صرف مسلمان جامعہ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کی دو تہائی آبادی مسلمان نہیں ہے۔ آپ کو یہاں اکیڈمک اسٹاف میں بھی یہی اعداد و شمار نظر آئے گا۔ جامعہ پورے ملک کی واحد یونیورسٹی ہے جو تحریک آزادی سے ابھر کر سامنے آئی ہے۔ یہ یونیورسٹی آزادی کی جدوجہد کے سائے میں پروان چڑھی ہے۔‘‘سویش کایہ بھی کہنا ہےکہ ئئپولیس اہلکاروں نے ہماری لائبریری کو تباہ کردیا لیکن ہم سڑکوں پر پڑھنا جاری رکھ ہوئے ہیں۔ وہ جو جامعہ کے بارے میں کسی بھی طرح کے بھرم میں ہیں، وہ یہاں آکر جامعہ کی تاریخ پڑھ سکتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’جامعہ ہمارے لئے گھر کی طرح ہے۔ ہم یہاں خود کو سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ جب پولیس نے ہم پر لاٹھیاں برسائیںتو ہمارے دوستوں نے خود لاٹھیاں کھاکر ہمیں بچایا اور ہر طرح سے ہمیں محفوظ رکھا۔ میں اپنے اس واقعہ کو ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔‘‘
 دہلی یونیورسٹی(ڈی یو) سے آنے والی طالبہ سواتی کھنہ کا کہنا ہے کہ ’’ڈی یو میں اب تک ۵؍ مظاہرے کئے جا چکے ہیں۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ احتجاج میں صرف مسلمان طلبہ ہی سامنے آئے ہیں۔ یہاں ہندو طلبہ کی اکثریت ہے۔ جامعہ میں بھی یہی کہانی ہے۔ اب آپ سوچتے ہیں کہ اگر میں نے یہ اسٹال سر پر رکھ دیا تو حجاب بنے گا۔ اب آپ جو سمجھنا چاہتے ہیں ،سمجھتے رہئے لیکن اس بار ہر سمجھدار آدمی اس تحریک کے ساتھ ہے۔‘‘
 شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف جامعہ کی اس تحریک کے بارے میں سب سے خاص بات یہ ہے کہ اگر یہاں کے طلبہ تحریک کے دوران پولیس کی گولی کا نشانہ بننے والے افراد کے لئے نماز پڑھ رہے ہیں تو وہیں ہر روز یہاں پرارتھنا سبھائیں بھی ہوتی ہیں۔ سنسکرت کے شلوک بھی پڑھے جارہے ہیں۔ وہ تمام پراتھنائیں پڑھی اور گائی جا رہی ہیں جو گاندھی جی کی پرارتھنا سبھاؤں میں گائے اور پڑھے گئے تھے۔
 خاص بات یہ ہے کہ یہاں کے طلبہ احتجاج کے ساتھ کرسمس بھی مناتے ہیں، جب پورا ملک نئے سال کی خوشی میں ڈوبا ہوا تھا، جامعہ کے طلبہ آزادی اور ہندوستان زندہ باد کے نعرے کے ساتھ قومی ترانہ پڑھ رہے تھے، جامعہ میں بھارت ماتا کی جے کا نعرہ بھی بلند کیا جارہا تھا۔ہمارے سکھ بھائی مستقل طور پر یہاں آ رہے ہیں اور لوگوں میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کررہے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK