متنازعہ علاقے پر قبضہ کرنے کا پناہ گزینوں کو کوئی حق نہیں، یہ تبصرہ کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے پاکستانی ہندو پناہ گزین کیمپ کے انہدام کو روکنے کی درخواست مسترد کردی۔
EPAPER
Updated: May 31, 2025, 10:10 PM IST | New Delhi
متنازعہ علاقے پر قبضہ کرنے کا پناہ گزینوں کو کوئی حق نہیں، یہ تبصرہ کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے پاکستانی ہندو پناہ گزین کیمپ کے انہدام کو روکنے کی درخواست مسترد کردی۔
دہلی ہائی کورٹ نے ایک درخواست مسترد کردی ہے جس میں دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) کو مجنوں کا ٹیلہ میں واقع پاکستانی ہندو پناہ گزین کیمپ کو متبادل زمین مختص کیے جانے تک ہٹانے یا گرانے سے روکنے کی استدعا کی گئی تھی۔ جسٹس دھرمیش شرما نے رہائشی روی رنجن سنگھ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ’’ انہیں اور دیگر اسی طرح کے پناہ گزینوں کو متنازع علاقے پر قبضہ جاری رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘، اور گزشتہ سال۱۳؍ مارچ کو دیے گئے عبوری حکم نامے کو ختم کردیا، جس میں انہیں عارضی راحت دی گئی تھی۔ کورٹ نے ڈی ڈی اے کو ہدایت کی کہ وہ سنگھ کے خلاف کوئی جبری کارروائی نہ کرے۔ سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ بھی گزارش کی تھی کہ ڈی ڈی اے کوجمنا ندی کے کنارے اکشردھام مندر اور کامن ویلتھ گیمز ولیج کی طرز پر غیر رسمی کالونیوں اور مذہبی ڈھانچوں کو تحفظ دینے کیلئے بندھ بنانے کی ہدایت دی جائے، ساتھ ہی ندی کی تقدس کو بھی برقرار رکھا جائے۔
درخواست مسترد کرتے ہوئے کورٹ نے کہا کہ پاکستانی پناہ گزینوں کو غیرملکی ہونے کی حیثیت کی وجہ سے ڈی یو ایس آئی بی پالیسی کے تحت بحال نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے درخواست گزار اور دیگر پناہ گزینوں پر زور دیا کہ وہ پہلے شہریت ترمیمی ایکٹ ( سی اے اے) ۲۰۱۹ء کے سیکشن ۱۰؍ اے کے تحت درخواست دے کر رجسٹریشن کریں جوآن لائن آسانی سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ اگر ضروری ہو تو متاثرہ فریق دہلی اسٹیٹ لیگل سروسز اتھارٹی کے ممبر سیکرٹری سے رابطہ کرکے ضروری قانونی کارروائی مکمل کرسکتے ہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایسی درخواست کی منظوری کا اثر یہ ہوگا کہ متاثرہ پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہری سمجھا جائے گا اور وہ کسی عام ہندوستانی شہری کی طرح تمام حقوق اور فوائد حاصل کرسکیں گے۔
جسٹس شرما نے مزید نوٹ کیا کہ عام بھارتی شہری بھی متبادل زمین کی مختص شدہ کو مطلق حق کے طور پر نہیں مانگ سکتے،
یہ بھی پڑھئے: اترپردیش: محکمہ جنگلات نے ایک صدی پرانی مسجد سمیت ۱۸۰؍ گھروں کو نوٹس بھیجا
خاص طور پر جب متنازعہ زمین خصوصی ممنوعہ زون جیسے زون اویعنی جمنا کے سیلابی میدان میں واقع ہو۔عدالت نے زور دیا کہ زیربحث پناہ گزین کیمپ اس ماحولیاتی حساس علاقے میں واقع ہے، جہاں نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے ڈی ڈی اے جیسی سرکاری ایجنسیوں کو غیر مجاز قبضہ گیروں سے زمین واپس لینے اور جمنا ندی کی ماحولیاتی صحت بحال کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی سخت ہدایات جاری کی ہیں۔ کورٹ نے واضح طور پر کہا،’’جمنا ندی کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے، یہ عدالت بلا تامل یہ رائے قائم کرتی ہے کہ درخواست گزار کی جانب سے ندی کی بحالی اور احیاء کی جاری کوششوں میں مداخلت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ عدالت نے کہا کہ یہ موقف ’’ کسی بھی انسانی ہمدردی یا ہمدردانہ دلائل سے بالاتر ہے، کیونکہ ایسی راحت دینا ، ان عوامی منصوبوں کے بروقت اور مؤثر نفاذ میں رکاوٹ اور تاخیر کا باعث بنے گا۔‘‘ کورٹ نے نوٹ کیا کہ پناہ گزینوں کی بحالی اور ان کی منتقلی کو ممکن بنانے کے لیے متعلقہ حکام کے ساتھ مخلصانہ کوششیں کی گئی تھیں۔ تاہم، یہ کوششیں ناکام رہیں، جسے عدالت نے سرکاری اداروں کی ذمہ داری سے بچنے کی ایک کلاسیکی مثال قرار دیا، خاص طور پر ہندوستان کی مرکزی حکومت کی جانب سے۔ بہر حال عدالت نے کہا کہ ’’، یہ عدالت پناہ گزینوں کی تکلیف کو کم کرنے کیلئے کوئی پالیسی ترتیب دینے کا کام نہیں کرسکتی۔‘‘