Inquilab Logo

لوجہادکےنام پرگرفتاریوں کےخلاف جمعیہ علماء نےالٰہ آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی

Updated: January 18, 2021, 11:48 AM IST | Agency | New Delhi

مولانا ارشدمدنی نے کہاکہ اس قانون کی آڑمیں ایک ہی فرقے کو نشانہ بنانا مقصد ہے،پٹیشن میں یو پی حکومت پر اپنے اختیارات کاناجائز فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو ہراساں کرنے کا الزام

Love Jihad - Pic : INN
لو جہاد ۔ تصویر: آئی این این

 یوپی کے سیتا پور شہر سے لوجہادکے نام پر گرفتا ر یوں کےخلاف قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جیل سے فوراً رہا کئے جانے کی عرضداشت جمعیۃعلماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی کی طرف سے الٰہ آبادہائیکورٹ کی لکھنؤ بینچ میں داخل کردی گئی ہے۔یہ اطلاع جمعیۃعلماء ہند کی جاری کردہ ریلیز میں دی گئی ہے۔ ریلیز کے مطابق جمعیۃعلماء ہند نے الزام لگایا کہ حکومتیں لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کررہی ہیں اور آئین ہند کے ذریعہ حاصل بنیاد ی حقوق کو اقتدار کے بل بوتے پر پامال کررہی  ہیں۔حکومتوں کے اس امتیازی اور ظالمانہ رویہ کے خلاف اب جمعیۃعلماء ہند نے بھی اپنی قانونی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے، اس پٹیشن پر آئندہ منگل یابدھ کو سماعت ہوسکتی ہے۔ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے معاملہ کی تفصیل پرروشنی ڈالتے ہوئے بتایاکہ ملزمین کے اہل خانہ نے مولانا وکیل احمد قاسمی کے توسط سے صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی سے قانونی امداد طلب کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے ملزمین کی رہائی کیلئے ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے اورپٹیشن داخل کردی گئی ہے۔ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ مجاہد احمد، ایڈوکیٹ فرقان خان کے ذریعہ داخل کردہ پٹیشن میں تحریر کیا گیا ہے کہ یو پی حکومت اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کو لو جہاد کے نام پر ہراساں کررہی ہے اور انہیں آئین ہند کے ذریعہ دیئے گئے بنیاد ی حقوق سے محروم کررہی ہے۔
 عرضداشت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ لو جہاد کو غیرقانونی قرار دینے والے قانون کا سہارا لیکر اتر پردیش پولیس مسلمانوں کو پریشان کررہی ہے اور انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جارہا ہے جس کی ایک بدترین مثال وہ مقدمہ ہے جس میں مسلم لڑکے کے والدین اورقریبی رشتہ داروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ ان کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مسلم لڑکے اور ہندو لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور دونوں فی الحال کہاں ہیں یہ بھی کسی کو نہیں معلوم لیکن لڑکی کے والد کی شکایت پر مقامی پولیس نے۲؍ خواتین سمیت ۱۰؍افراد کو گرفتار کرلیا جس کے بعد سے پورے علاقے میں سراسمیگی کا ماحول ہے۔ 
 جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کچھ ریاستوں میں مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی غرض سے نام نہادلوجہادکی آڑمیں لائے گئے قانون پر سخت ردعمل کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی آئین کے رہنمااصولوں کے خلاف ہے اور یہ قانون شہریوں کی آزادی اور خودمختاری پر ایک حملہ ہے جبکہ آئین میں ملک کے ہر شہری کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے بلکہ اسے اپنی پسند اور ناپسند کے اظہارکا بھی پورااختیاردیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون سازی کے وقت دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوگااور کسی فرقے کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں برتاجائے گالیکن اترپردیش جیسی اہم ریاست میں اس آئین مخالف قانون کا بلا روک ٹوک ایک مخصوص فرقہ کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK