Inquilab Logo

پہلےمرحلے کے الیکشن میں اُترپردیش میں کم پولنگ سے اپوزیشن کو فائدہ اور بی جے پی کو نقصان کااندازہ

Updated: April 24, 2024, 12:45 PM IST | Hameedullah Siddiqui | Lucknow

پہلے مرحلے کے انتخابات میں کم پولنگ کی وجہ سے یوں تو پورے ملک میں بے چینی ہے لیکن سب سے زیادہ بی جے پی پریشان ہے، بالخصوص اترپردیش کی وجہ سے، جہاں لوک سبھا کی ۸۰؍ سیٹیں ہیں۔

Low polling has made BJP sleepless. Photo: INN
کم پولنگ نے بی جے پی کی نیند حرام کردی ہے۔ تصویر : آئی این این

پہلے مرحلے کے انتخابات میں کم پولنگ کی وجہ سے یوں تو پورے ملک میں بے چینی ہے لیکن سب سے زیادہ بی جے پی پریشان ہے، بالخصوص اترپردیش کی وجہ سے، جہاں لوک سبھا کی ۸۰؍ سیٹیں ہیں۔ بی جے پی کا خیال تھا کہ اس مرتبہ یوپی میں اس کی سیٹیں بڑھیں گی لیکن کم پولنگ نے اس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ واضح رہے کہ پہلے مرحلے کے تحت یوپی کے ۸؍ حلقوں میں پولنگ ہوئی ہے۔ 
 اطلاعات کے مطابق، یوپی کی آٹھ سیٹوں پر تقریباً ۶۰ء۲۵؍فیصد ووٹنگ ہوئی ہے جبکہ ۲۰۱۹ءمیں ۶۸ء۸۶؍ فیصد ووٹنگ ہوئی تھی۔ اسی طرح ان سیٹوں پر ۲۰۱۴ء میں ۶۶ء۷۲؍ فیصدووٹنگ ہوئی تھی۔ ۲۰۱۹ءمیں بی جے پی کیرانہ، مظفر نگر اور پیلی بھیت کی تین سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی جبکہ ایس پی، بی ایس پی اتحاد نے سہارنپور، بجنور، نگینہ مرادآباد، رامپور کل۵؍ سیٹیں جیتیں تھیں۔ ۲۰۱۹ء کے مقابلے اس بار پیلی بھیت میں ۷ء۱۹؍ فیصد، سہارنپور میں ۷ء۷۵؍ فیصد، بجنور میں ۱۰؍فیصد، نگینہ میں ساڑھے ۶؍فیصد، کیرانہ میں ۹ء۳۳؍ فیصد، مظفر نگر میں ۱۱ء۴۱؍ فیصد، رام پور میں ۹ء۶۳؍ فیصد اور مراد آباد میں ۷ء۷۰؍ فیصدکم ووٹنگ ہوئی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سنیل تٹکرے کا آخری وقت تک سیکولر رہنے اور سب کیلئے کام کرنے کا عزم

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق کم ووٹنگ فیصد کا براہ راست بی جے پی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ سینئرصحافی زیداحمد فاروقی کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش میں اعلیٰ ذات بالخصوص ٹھاکر اور تیاگی سماج کی بی جے پی سے ناراضگی بھی کم ووٹنگ کا سبب ہے جس کا فائدہ ’انڈیا‘ اتحادکو مل سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پچھلے ۱۰؍سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی حکومت نے عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں کئے۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کے روایتی ووٹ بینک میں سرد مہری پائی جارہی ہے۔ 
 سماجوادی پارٹی کی ترجمان سمیہ رانا کا کہنا ہے کہ ووٹنگ فیصد کم ہونے کا سبب بی جے پی حامیوں کی اپنی پارٹی سے ناراضگی ہے کیونکہ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں عوام کو صرف وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا اورٹکٹوں کی تقسیم میں بھی ایک خاص طبقے کو نظرانداز کرنے کا الزام لگا ہے۔ اس طبقے نے پہلے ہی سے ووٹنگ کے بائیکاٹ کا اعلان کررکھا تھا۔ سمیہ رانا کے مطابق بی جے پی کو اقتدارسے بے دخل کرنے کیلئے غریب، کسان اور مسلمان متحد نظرآئے، اس کی وجہ سے اس طبقے کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں تھی البتہ بی جے پی خیمے میں ضرورسست روی رہی جس کا خمیازہ بی جے پی کو اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی یہی ٹرینڈ دیکھا جا سکتا ہے۔ 
 دبی زبان سے بی جے پی لیڈر محسن رضا نے اس بات کااعتراف کیا کہ الیکشن میں ووٹنگ فیصدکم ہونا جمہوریت کیلئے نیک فال نہیں البتہ اسی کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمی کا فائدہ یا نقصان کس پارٹی کو ہوگا، یہ کہنا ابھی جلدبازی ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات کے صحیح رحجانات کا اندازہ دوسرے اور تیسرے مرحلے کے بعد ہو سکے گا۔ پہلے مرحلے میں ۲۰۱۹ء کے مقابلے کم ووٹنگ کی وجہ انہوں نے ووٹرس کی کاہلی بتائی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK