• Mon, 01 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

مراٹھا آندولن کیلئے پولیس نے مزید ایک دن کی توسیع کردی

Updated: September 01, 2025, 1:33 PM IST | Nadeem Asran | Mumbai

مظاہرین کو نائر، جے جے، سینٹ جارج، بامبے اور دیگر اسپتالوں کے ذریعے طبی خدمات پہنچائی جارہی ہیں۔ پولیس نظم ونسق برقراررکھنے میں مصروف۔

Protesters participating in the Maratha Morcha outside the BMC headquarters on Sunday. Photo: Ashish Raje
اتوار کو بی ایم سی کے صدردفترکے باہرمراٹھا مورچہ میں شریک مظاہرین۔ تصویر: آشیش راجے

 مراٹھا ریزرویشن کے لئے منوج جرنگے پاٹل کی غیر معینہ بھوک ہڑتال چوتھے دن میں داخل ہوچکی ہے۔ ایک طرف حکومت کی سطح پر جرنگے پاٹل کے مطالبات پر میٹنگوں اور تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری ہے وہیں پولیس مراٹھا مظاہرین کو مطالبات پورے ہونے تک احتجاج کیلئے دی گئی درخواست پر روزانہ صرف ایک دن کی توسیع کررہی ہے۔ اتوار کو ایک بار پھر جہاں پولیس نے احتجاج کیلئے مانگی گئی اجازت پر ایک دن کی توسیع کر دی ہے وہیں سیکڑوں کی تعداد میں آزاد میدان، چھتر پتی شیواجی مہاراج ٹرمنس اور بی ایم سی ہیڈ کوارٹرز کے اطراف خیمہ زن ہونے والے مظاہرین کے سبب پیدا ہونے والے ٹریفک کے مسئلہ پر قابو پانے اور نظم و نسق کو بحال کرنے میں مصروف ہے۔ اس دوران شہری انتظامیہ نے خصوصی طو ر پر جنوبی ممبئی اور اطراف میں مظاہرین کو طبی سہولت فراہم کرنے کے مقصد سے کئی اسپتالوں کے دروازہ کھول دیئے ہیں اور  مراٹھامظاہرین کو بی ایم سی نے ۲۴؍ گھنٹے طبی خدمات پیش کرنے کیلئے آزاد میدان میں ڈاکٹروں اور میڈیکل اسٹاف کی ۴؍ ٹیمیں اور ۴؍ ایمبولنس تعینات کی ہے۔ نائر اسپتال کی ایک ٹیم بھی آزاد میدان میں مستقل موجود ہے۔ اس کے علاوہ نائر، کے ای ایم، جی ٹی، بامبے اسپتال، سینٹ جارج اور جے جے اسپتال میں بھی ۲۴؍ گھنٹے نہ صرف طبی امداد فراہم کی جارہی ہیں بلکہ ان ا سپتالوں کی بھی ایک ایک ٹیم بھی آزاد میدان اور اطراف میں خیمہ زن ہے۔ یہی نہیں گزشتہ تین دنوں سے ہونے والے احتجاج کے دوران ایک ہزار ۳۷؍ کارکنان کو پیش آنے والے طبی مسائل پر فوری طبی مدد بھی پہنچائی جاچکی ہے۔ 
 پولیس اور بی ایم سی کی فراہم کردہ اطلاع کے مطابق مراٹھا ریزرویشن کے احتجاج میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں ۔ شہری انتظامیہ نے مذکورہ اطلاع ملنے کے فوراً بعد نہ صرف طبی بلکہ کھانے پینے کا انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ ۳؍ سو سے زائد عارضی بیت الخلاءآزاد میدان اور اطراف میں بنائے ہیں ساتھ ہی آزاد میدان اور اطراف میں احتجاج کرنے والوں کو صاف ستھری جگہ فراہم کرنے اور علاقے کو گندگی سے پاک رکھنے کے لئے ۸؍ سو سے زائد صفائی ملازمین کو بھی تعینات کیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعہ کو مراٹھا لیڈر جرنگے پاٹل نےآزاد میدان میں غیر معینہ بھوک ہڑتال شروع کی ہے لیکن مراٹھا کارکنان جمعرات ہی سے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے آزاد میدان اور اطراف میں خیمہ زن ہوچکے تھے۔ 
  اتوار کو تیسرے دن بھی مراٹھامظاہرین اپنے لیڈر کی تصویر لے کر ڈھول تاشہ بجاتے اور بھگوا پرچم لہراتے، نعرے لگاتے ۱۰؍ فیصد ریزرویشن کا مطالبہ کرتے رہے۔ جرنگے پاٹل نے اپنے مطالبات پورے ہونے تک کسی بھی قیمت پر احتجاج اور غیر معینہ بھوک ہڑتال ختم نہ کرنے کا پیغام دیتے ہوئے حکومت کوایک بار پھر للکارا اور احتجاج میں مزید لانے کا انتباہ دیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اتوار کو مراٹھا کارکنان کے ساتھ چند غیر ملکی شہری بھی احتجاج شریک نظر آئے۔ 
 مراٹھا مورچہ اور وی آئی پی گنپتی درشن کیلئے بسوں کے روٹ تبدیل
مراٹھا مورچے کے سبب جنوبی میں سرگرمیاں ایک طرف ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ تمام یقین دہانیوں کے باوجود شہری پریشان ہیں، ذرائع نقل وحمل محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ بہت سے شہری خود ہی شہر کا رخ کرنے سے کترارہے ہیں ۔ اتوار کو تیسرے دن بھی جنوبی ممبئی اور دیگر روٹ پر چلائی جانے والی بیسٹ کی۸۳؍ بسوں کے روٹ بدلے گئے جس کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مورچے کے سبب کرافورڈ مارکیٹ اور منیش مارکیٹ وغیرہ میں بھی کاروبار ٹھنڈا رہا، گاہک ندارد تھے۔ بیسٹ کے پی آر او دتاترے ڈگاڈے نے نمائندۂ انقلاب کو بتایا کہ مراٹھامورچہ کے سبب۵۰؍ اور لال باغ کے راجا کے وی آئی پی درشن کے لئے۳۳؍ بسوں کے روٹ بدلے گئے۔ 
 عبدالرحمٰن خان نامی تاجرنے بتایا کہ کرافورڈ مارکیٹ اور منیش مارکیٹ میں مورچے کی وجہ سے تین دن‌ سے کاروبار بری طرح متاثر ہوا ہے، گاہک نہیں ہیں۔ اسی طرح کی تفصیل نعیم شیخ نے بھی بتائی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ مورچے کی وجہ سے کاروبار آدھا ہوگیا ہے، گاہک بہت کم آرہے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK