Inquilab Logo Happiest Places to Work

جنگ بندی اور مغویوں کی رہائی کیلئے یاہو پر دباؤ بڑھا

Updated: August 25, 2025, 2:30 PM IST | Agency | Tel Aviv

تل ابیب سمیت مختلف شہروں میں سنیچر کو  ہفتہ واری مظاہرے، اتوار کو کئی اہم وزراء کی رہائش گاہوں کے باہر بھی احتجاج کیا گیا۔

Protesters blocked a major highway in Tel Aviv on Saturday night. Photo: PTI
تل ابیب کی ایک اہم شاہراہ پرسنیچر کی رات مظاہرین نے راستہ روکو آندولن کیا۔ تصویر :پی ٹی آئی

اسرائیلی مغویوں کی رہائی اور غزہ میں  جنگ بندی  کے لئے اسرائیلی شہریوں کی جانب سے یاہو حکومت پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اسرائیل بھر میں ہر ہفتے اس ضمن میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے  غزہ پر قبضے کی تیاریوں سے قبل ہزاروں مظاہرین سنیچر کی شب تل ابیب اور دیگر شہروں میں سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ حماس کے ساتھ معاہدہ کیا جائے۔کئی مہینوں کی بالواسطہ مذاکراتی کوششوں کے باوجود اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ 
’’ہمیں ابدی جنگ کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘‘
 غزہ  پٹی میں قید یرغمالوںکے اہل خانہ اور ان کے حامیوں نے اتوار کواسرائیلی  کابینہ کے وزیروں کے گھروں کے باہر مظاہرے کیے اور حکومت پر الزام لگایا کہ وہ ’’ہمارے پیاروں کو ایک ابدی جنگ کی بھینٹ چڑھا رہی ہے‘‘ ٹائمس آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق مظاہرین صبح سویرے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز، وزیربرائے اسٹریٹیجک امور رون ڈرمر، وزیرِ خارجہ گیڈون سار، وزیر توانائی ایلی کوہن، وزیر ٹرانسپورٹ میری ریگیو اور وزیر زراعت آوی ڈکٹر کے گھروں کے باہر جمع ہوئے۔ ’’ہوسٹیج فیملیز فورم‘‘ نے ایک بیان میں کہا:’’ہم کابینہ کو جگانے آئے ہیں۔ حکومت کا یہ فیصلہ کہ ہمارے پیاروں کو ایک ابدی جنگ کی قربان گاہ پر چڑھایا جائے، یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس نے اپنا راستہ کھو دیا ہے۔‘‘بیان میں مزید کہا گیا: ’’یرغمالوں کے معاہدوں کو بار بار سبوتاژ کرنے کی کوئی معافی نہیں ہوگی۔ عوام کی خواہش پوری کرو: جنگ ختم کرو اور سب کو گھر واپس لاؤ۔‘‘روب اور ہگیت چین، فوجی ایتائے چین کے والدین نے کہا: ’’میں نے اپنے بیٹے کو۶۸۸؍ دنوں سے نہیں دیکھا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کہاں ہے، کبھی اسے واپس پا سکوں گی یا نہیں، حکومت کہاں ہے؟‘‘
 ٹائمس آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق قبل ازیں جمعہ کو مظاہرین نے تل ابیب کو جوڑنے والے بڑے ہائی ویز پر راستہ روکو آندولن کیا۔ جبکہ  یروشلم میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر بھی  مغویوں کی فیملی کے ساتھ ہزاروں افراد نے احتجاج کیاتھا۔
 اسرائیلی میڈیا کے مطابق نیتن یاہو کی حکومت میں شامل انتہائی دائیں بازو کے وزراء کسی معاہدے کے سخت مخالف ہیں۔ وزیر خزانہ بزلیل سموٹریچ نے قیدیوں کے اہلِ خانہ سے کہا کہ اگر نیتن یاہو جنگ بندی پر راضی ہوئے تو وہ حکومت چھوڑ دیں گے۔
 اسرائیلی اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر دفاع بینی گینٹز نے ہفتے کو تجویز دی کہ ’ فداء الاسریٰ‘ کے نام سے چھ ماہ کے لئے ایک قومی حکومت قائم کی جائے تاکہ معاہدہ ممکن ہو سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر نیتن یاہو اس پر راضی نہ ہوئے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ہر ممکن کوشش کر لی گئی۔سیاسی مبصرین کے مطابق نیتن یاہو کے لئے یہ تجویز قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ ان کا سیاسی وجود دائیں بازو کے اتحادیوں پر منحصر ہے۔ گینٹز کے مطابق اس عبوری حکومت کا پہلا مقصد غزہ میں موجود تمام۵۰؍ قیدیوں کی رہائی ہونا چاہیے، جن میں سے۲۰؍ کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔ بعد ازاں آئندہ برس نئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔
 قیدیوں کے لواحقین نے بھی حکومت سے فوری معاہدے پر زور دیا ہے۔ان کا کہنا  ہے کہ ’’نیتن یاھو آج ہی معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں جس کے تحت۱۰؍ زندہ قیدیوں اور۱۸؍ لاشوں کی واپسی ممکن ہے۔ وہ باقی قیدیوں کی رہائی کے لیے فوری مذاکرات شروع کر سکتے ہیں اور اس جنگ کو ختم کر سکتے ہیں۔‘‘
 حماس نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا کہ اس نے ثالثوں کو جنگ بندی کے ایک نئے مجوزہ فارمولے پر مثبت جواب دے دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ فارمولہ امریکی نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف کی سابقہ تجویز کی ترمیم شدہ شکل ہے۔ اس کے مطابق۶۰؍ روزہ جنگ بندی کے دوران۱۰؍ اسرائیلی قیدیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK