Inquilab Logo Happiest Places to Work

ووٹرلسٹ خصوصی نظر ثانی مہم پرسوالیہ نشان

Updated: July 11, 2025, 12:12 AM IST | New Delhi

سپریم کورٹ نے متعدد سوال اٹھائے، آدھار، ووٹر آئی ڈی کارڈاور راشن کارڈ کو تسلیم نہ کرنے پر الیکشن کمیشن سے سخت سوالات کئے ، ان دستاویزات کوقبول کرنے پر زور،مہم چلانے کے وقت پر شبہ کا اظہار لیکن فی الحال اسٹے نہیںدیا ، اگلی سماعت ۲۸؍ جولائی کو مقرر کی

Opposition parties have staged massive protests against the `voting ban` in Bihar in recent days. (PTI)
بہار میں ’ووٹ بندی ‘ کیخلاف گزشتہ دنوں ہی اپوزیشن پارٹیوں نے زبردست احتجاج کیا ہے۔(پی ٹی آئی )

بہار میں الیکشن سے محض چند ماہ قبل ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم پر سپریم کورٹ نے  انتہائی سخت سوال اٹھائے ہیں۔ عدالت نےالیکشن کمیشن آف انڈیا سے کئی سخت سوالات کئے اورآدھار،ووٹر آئی ڈی کارڈ  اورراشن کارڈ کود ستاویز کے طورپر قبول نہ کرنے کی نا معقولیت پر شدید برہمی ظاہر کی ۔ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم کی آڑ میں شہریت کے تعین پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے کہا کہ یہ کام الیکشن کمیشن کا نہیں بلکہ مرکزی وزارت داخلہ کا ہے۔جب الیکشن کمیشن کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ آرٹیکل ۳۲۶؍ کے تحت اسے یہ اختیار حاصل ہے تو اس پر جسٹس سدھانشو دھولیہ اور جسٹس جوئے مالاباغچی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےکہا کہ یہ حقیقت ہے کہ اختیار حاصل ہے لیکن اس کے حالات بہت مختلف ہیں۔ بہار میں ایسی کوئی صورتحال نہیں ہے۔ ساتھ ہی بنچ نے برہمی ظاہر کی کہ الیکشن کمیشن کو یہ عمل بہت پہلے شروع کرنا چاہئے تھا عین الیکشن کے وقت یہ عمل کیوں کیا جارہا ہے ؟سپریم کورٹ نے کمیشن کو ووٹرلسٹ کیلئے آدھار کارڈ،ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ کوقبول کرنے پربھی زور دیا۔
 ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس اور اپوزیشن کی ۹؍ جماعتوں کے ذریعہ بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پربنچ نے کہا کہ جو نکات  اٹھائے گئے ہیں وہ جمہوریت کی جڑ اور ووٹ دینے کے حق سے متعلق ہیں۔ ان درخواستوں  میں الیکشن کمیشن کےذریعہ خصوصی نظر ثانی مہم اور اس کو کرانے کے طریقہ کارکوچیلنج کیا گیا ہے ۔بنچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نہ توسرسری نظر ثانی کرارہاہے اور نہ ہی گہرائی کے ساتھ نظر ثانی کررہاہے بلکہ وہ خصوصی طورپر گہرائی کے ساتھ نظر ثانی کررہاہے جو مذکورہ ایکٹ میں موجود ہی نہیں ہے۔جسٹس دھولیہ نے کمیشن کے وکیل سے کہا کہ لوگ ۲۰؍سال سے ووٹ ڈال رہےہیں اور ان سے اچانک ایسے دستاویزات طلب کئے جارہے ہیںجو ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔ اس پر الیکشن کمیشن کی نیت پر سوال اٹھنا فطری ہے۔  
 اے ڈی آر کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ گوپال شکر نارائنن نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ  کے تحت ووٹرلسٹ کی سرسری نظر ثانی اور گہرائی کے ساتھ نظرثانی کا التزام ہے لیکن کمیشن خصوصی طورپر گہرائی کے ساتھ نظر ثانی کرارہاہے جس کی ہندوستانی کی تاریخ میں پہلے کبھی نظیر نہیںملتی۔انہوں نے مزید کہا کہ بہار میں ووٹرلسٹ کی سرسری نظر ثانی ہوتی رہی ہے اور عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کانام ووٹرلسٹ میں ہے تواس کو شہری تسلیم کیا جائےگا۔ شنکرنارائنن نے کہا کہ آدھار کو ثبوت کے طورپر تسلیم نہیں کیا جارہاہے جبکہ آر پی ایکٹ میں اس کو تسلیم کیا گیا۔اس موقع پر جسٹس دھولیہ نے بھی کہا کہ کمیشن جن ۱۱؍دستاویزات کو طلب کررہاہے وہ سب آدھار کی بنیاد پر ہی تیار کئے جاتے ہیں۔
 راشٹریہ جنتادل کے لیڈر منوج جھا کی طرف سے  دلائل دیتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کہ کمیشن جن دستاویزات کا مطالبہ کررہاہے،وہ بہار میں بہت کم لوگوںکے پاس  ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK