ووٹ چوری کے ثبوت پیش کئے، کم و بیش ایک گھنٹے کی سنسنی خیز پریس کانفرنس میں مرحلہ وار تمام تفصیلات پیش کیں، الیکشن کمیشن کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 12:05 PM IST | New Delhi
ووٹ چوری کے ثبوت پیش کئے، کم و بیش ایک گھنٹے کی سنسنی خیز پریس کانفرنس میں مرحلہ وار تمام تفصیلات پیش کیں، الیکشن کمیشن کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے
کانگریس لیڈر اور ملک کے اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نےحسب اعلان ووٹ چوری کا ’ایٹم بم ‘پھوڑتے ہوئے تمام ثبوت ایک سنسنی خیز پریس کانفرنس کے دوران پیش کردئیے ۔ انہوں نے الیکشن کمیشن پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانے پر جعل سازی، فرضی ووٹروں کا اندراج اور انتخابی نتائج میں ہیرا پھیری کے ذریعے بی جے پی کو فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔
طویل پریس کانفرنس
ایک گھنٹے سے بھی زائد وقت تک جاری رہی ان کی پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ ہمیں اور کروڑوں لوگوں کو شبہ تھا کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے۔ بی جے پی پر حکومت مخالف لہر کا اثر نہیں ہوتا تھا، عوامی پول، ایگزٹ پول کچھ کہتے، نتائج کچھ اور آتے تھے۔ مدھیہ پردیش، ہریانہ، مہاراشٹر اس کی مثال ہیں۔ ماحول بنایا جاتا کہ اس وجہ سے جیتے، پلوامہ، سیندور، لاڈلی بہن۔ پھر الیکشن کمیشن کوریوگراف کردہ شیڈول بناتا۔ راہل نے کہا کہ جب کاغذ (بیلٹ پیپر) سے ووٹ ڈالے جاتے تھے تو پورا ہندوستان ایک دن میں ووٹ ڈالتا تھا مگر اب الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہے تو ایک مہینے سے زیادہ لگ جاتا ہے۔ یوپی کے پانچ مراحل، مہاراشٹر کے کئی مراحل، اس پر بھی کچھ انتخابات کا وقت بھی تبدیل کر دیا جاتا تھا۔ لوک سبھا میں ہمارا اتحاد جیت درج کرتا ہے لیکن اسمبلی انتخابات میں دھجیاں اڑ جاتی ہیں، پتہ بھی نہیں لگتا اتحاد کہاں گیا۔ ایک کروڑ نئے ووٹرس نے اسمبلی میں ووٹ دیا۔ الیکشن کمیشن نے بیان دیا کہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد بھاری ووٹنگ ہوئی جبکہ ہمارے پولنگ بوتھ کے ورکرس نے بتایا کہ کوئی بھاری ووٹنگ نہیں ہوئی۔
مہاراشٹر کے پیٹرن پر سب سے پہلے شبہ ہوا
راہل گاندھی کے مطابق مہاراشٹر میں سب سے پہلے شبہ ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے لیکن ہمارے کوئی ثبوت نہیں تھا ، ہم نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ الیکشن کمیشن سے بھی پوچھا کہ ایک کروڑ نئے ووٹ کہاں سے آئے؟ ثبوت جمع کرنے میںالیکشن کمیشن نے مدد نہیں کی بلکہ جس چیز کی ضرورت تھی وہ نہیں دی، بہانے بتائے۔ ہم نے ان سے ڈیجیٹل ووٹر رول مانگا، نہیں دیا۔ ایک نہیں کئی مرتبہ دینے سے انکار کر دیا۔ وفد گئے، خط لکھا، کچھ نہیں ہوا بلکہ ہر قدم پر کمیشن نے ہماری حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کی ۔
کمیشن سے ویڈیو مانگے گئے
راہل گاندھی نے بتایا کہ ساڑھے پانچ بجے کے بعد بھاری ووٹنگ پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ وہ ۱۵؍ دن کے بعد ویڈیو ڈیلیٹ کر دیتے ہیں۔ آج ۲۱؍ویں صدی میں اَن لمیٹڈ ڈیٹا ہارڈ ڈرائیو پر رکھ سکتے ہیں تو وہ ڈیٹا ڈیلیٹ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ہم نے کرناٹک میں تحقیقات کا آغاز کیا۔ لوک سبھا میں ۹؍سیٹیں جیتیں اور ۷ ؍ ہار گئے۔ ان میں سے ہم نے ایک کا انتخاب کیا، مہادیو پورا۔ یہاں بی جے پی ۳۰؍ہزار ووٹروں سے جیتتی ہے مگر ۷؍ میں سے ۶؍ اسمبلی حلقوں میں ہارتی ہے اور ایک میں سویپ کرتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ڈیٹا فراہم کیا لیکن ویسا نہیں جیسا مانگا گیا تھا اسی لئے اس کام ہمارے ۶؍مہینے لگ گئے۔ اس جانچ پڑتال سے واضح ہوا کہ ووٹوں کی چوری ہوئی ہے۔ ایک لاکھ ۲۵۰؍ ووٹ چوری ہوئےجو ۵؍ طریقوں سے کئے گئے۔ پہلا ڈپلیکیٹ ووٹرز، دوسرا جعلی اور نامکمل پتے، تیسرا ایک ہی پتے پر درجنوں ووٹرز، چوتھا نامناسب یا جعلی تصاویراور پانچواں فارم ۶؍ کا غلط استعمال۔
نام اور پتے کے ساتھ ثبوت پیش کئے
راہل نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ کیسے ووٹ چوری کئے گئے انہوں نے ووٹر لسٹ سے ایک نام پیش کیا کہ گرکیرت سنگھ ڈانگ ہیں جن کا نام ۴؍ الگ الگ بوتھ پر موجود ہے۔ یہ صرف ایک شخص نہیں ہے، ایسے ہزاروں ووٹر ہیں۔ یہ سب جعلی ووٹرز ہیں۔ راہل نے پھر ایک نام پیش کیا اور بتایا کہ ایک اور ڈپلیکیٹ ووٹر ہے۔ اس کا نام آدتیہ سریواستو ہے۔ اس کا نام مہاراشٹر، کرناٹک لکھنؤ اور دہلی میں آتا ہے۔ اسی طرح ایک نام وشال سنگھ کا ہے، جو دو مرتبہ کرناٹک، ایک مرتبہ وارانسی میں یہ ووٹ کر رہے ہیں۔ ایسے ہزاروں لوگ ہیں ۱۱؍ ہزار ووٹ اس طرح چوری ہوئے۔
ایک پتے پر ہزار ووٹرس!
راہل گاندھی نے بتایا کہ فرضی پتے، یا تو پتہ ہے ہی نہیں یا مکان نمبر صفر، والد کا فرضی نام اور پتہ موجود ہی نہیں ہے۔ ایک سنگل بیڈروم کا گھر ہے جس کے پتے پر ۸۰؍ ووٹروں کے نام درج ہیں۔ایک گھر کے پتہ پر ایک ہزار ووٹرس درج ہیں۔ کیا کوئی یقین کرسکتا ہے؟ الیکشن کمیشن تو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ تمام لوگ ایک ہی محلے میں اور ایک ہی گھر میں رہتے ہیں مگر وہ بھی وہاں نہیں ملے۔
کانگریس لیڈر کے مطابق کچھ ووٹروں کی تصویر یا تو بہت چھوٹی ہے یا ناقابل شناخت ہے۔ اس کے بعد فارم ۶؍ کا غلط استعمال بھی کیا گیا ہے ۔ مثال کے طور پر شکون رانی۱۳؍ ستمبر ۲۰۲۳ء کو فرسٹ ٹائم ووٹر بنتی ہیں لیکن اس وقت ان کی عمر ۷۰؍ سال ہے۔ ان کا ووٹ بھی دو بار ڈالا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ۱۱۹۶۵؍ ڈپلیکیٹ ووٹر بنائے گئے۔۴۰۰۰۹؍ جعلی یا نامکمل پتے استعمال ہوئے۔۱۰۴۵۲؍ ووٹرز کو ایک ہی پتے پر رجسٹر کیا گیا۔۴۱۳۲؍ ووٹرز ناقابل شناخت تصویر کے ساتھ لسٹ میں شامل ہوئے۔۳۳۶۹۲؍ نئے ووٹرز فارم ۶؍ کے غلط استعمال سے شامل کئے گئے۔ راہل نے الزام لگایا کہ نریندر مودی صرف ۲۵؍ لوک سبھا سیٹوں کی وجہ سے وزیر اعظم ہیں۔ ہمیں الیکشن کمیشن یہ ڈیٹا اس لئے نہیں دیتا کہ جیسا مہادیوپورا میں کیا ویسا ہی دوسری لوک سبھا سیٹوں میں کرا دیں گے تو ملک کی جمہوریت کی سچائی باہر آ جائے گی۔ راہل نے کہا کہ یہ ایسے شواہد ہیں جن سے نہ انکار کیا جاسکتا ہے اور نہ منہ پھیرا جاسکتا ہے۔ اسی لئے الیکشن کمیشن ملک بھر میں ثبوت مٹانا چاہتا ہے ۔ وہ بی جے پی کی مدد کر رہا ہے اور انتخابی نظام کو تباہ کر رہا ہے ۔ راہل گاندھی نے جو ثبوت پیش کرکےالیکشن کمیشن کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا اس کی وجہ سے ملک میں ہنگامہ برپا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ کانگریس کے انتہائی سخت تیور اور اپوزیشن کے جارحانہ انداز کی وجہ سے بیک فٹ پر آئے الیکشن کمیشن کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے ہیں۔ اس نے فوری طور پر راہل گاندھی کے نام ایک خط جاری کیا ہے ۔موصولہ اطلاع کے مطابق کرناٹک کے چیف الیکٹورل افسر نے راہل گاندھی کو خط لکھ کر نااہل ووٹرس اور اہل ووٹرس کے نام ہٹانے کے الزامات پر حلف نامہ طلب کیا ہے۔ ہندی نیوز پورٹل ’اے بی پی لائیو‘ پر شائع ایک پورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چیف الیکٹورل افسر نے راہل گاندھی اور کانگریس کے نمائندہ وفد کو جمعہ کو ایک بجے سے ۳؍بجے کے درمیان ملاقات کا وقت دیا ہے۔کرناٹک الیکشن کمیشن نے جمعرات کو راہل گاندھی کے ذریعہ ووٹر لسٹ میں دھاندلی کے الزامات پر اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کرناٹک کے الیکشن کمشنر نے راہل گاندھی کے نام جو خط لکھا ہے، اس میں کہا گیا ہے کہ کانگریس نمائندہ وفد نے ۸؍ اگست۲۰۲۵ء کو سی ای او (چیف الیکٹورل افسر) سے ملاقات کرنے اور ایک عرضداشت پیش کرنے کے لیے وقت طلب کیا تھا، جس کے لئے دوپہر ایک بجے سے ۳؍ بجے کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔راہل گاندھی کے الزامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے چیف الیکٹورل افسر نے بتایا کہ ووٹر لسٹ کو شفاف طریقے سے عوامی نمائندہ ایکٹ، ووٹر رجسٹریشن ایکٹ اور الیکشن کمیشن کی ہدایات کے مطابق تیار کیا گیا ہے۔ خط کے مطابق نومبر۲۰۲۴ءمیں ڈرافٹ ووٹر لسٹ اور جنوری۲۰۲۵ء میں حتمی ووٹر لسٹ کانگریس کے ساتھ شیئر کی گئی تھی۔ اس کے بعد کانگریس کی طرف سے کوئی اپیل یا شکایت درج نہیں کی گئی۔ خط میں راہل گاندھی سے یہ گزارش کی گئی ہے کہ وہ ووٹر لسٹ میں شامل یا ہٹائے گئے اشخاص کے نام، پارٹ نمبر اور سیریل نمبر کے ساتھ ایک حلف نامہ جمع کریں تاکہ ضرور کارروائی شروع کی جا سکے۔ حلف نامہ میں یہ بھی اعلان کرنا ہوگا کہ دی گئی جانکاری درست ہے، اور غلط جانکاری دینے پر قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔راہل گاندھی کے نام تحریر خط میں الیکشن کمیشن نے واضح کیا ہے کہ انتخابی نتائج کو صرف ہائی کورٹ میں انتخابی عرضی کے ذریعہ سے چیلنج کیا جا سکتا ہے۔