سپریم کورٹ میںیوگیندر یادو نے موثر دلائل پیش کئے، عدالت کو اس کی یقین دہانی بھی یاد دلائی مگر بنچ شہریت کیلئے صرف حلف نامہ کی دلیل سے مطمئن نہیں
EPAPER
Updated: August 12, 2025, 11:04 PM IST | New Delhi
سپریم کورٹ میںیوگیندر یادو نے موثر دلائل پیش کئے، عدالت کو اس کی یقین دہانی بھی یاد دلائی مگر بنچ شہریت کیلئے صرف حلف نامہ کی دلیل سے مطمئن نہیں
بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی جامع نظر ثانی کے خلاف پٹیشنوں پر سماعت کے دوران منگل کو یوگیندر یادو نے سپریم کورٹ میں موثر دلائل پیش کرتے ہوئے یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ مہم دراصل ناموں کو حذف کرنے کی مہم بن گئی ہے۔ انہوں نے ایسے ۲؍ افراد کو بھی عدالت میں پیش کیا جو زندہ ہیں مگر انہیں مردہ قرار د کے کر ڈرافٹ ووٹر لسٹ سے ان کا نام نکال دیا گیا ہے۔ یوگیندر یادو نے سپریم کورٹ کو اس کی یقین دہانی بھی یاد دلائی جو اس نے مقدمہ کی سماعت شروع ہوتے وقت کرائی تھی کہ اگر بڑی تعداد میں نام حذف ہوئے ہوں گے تو عدالت مداخلت کریگی۔ اپنے پیش کردہ اعدادوشمار اور تجزیہ کی بنیاد پر یوگیندر یادو نے کورٹ کو آگاہ کیا کہ اگر الیکشن کی ’’خصوصی نظر ثانی‘‘ جس طرح چل رہی ہے اسی طرح چلتی رہی تو حذف شدہ ناموں کی تعداد ۶۵؍ لاکھ سے کہیں زیادہ بڑھ کر ایک کروڑ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ ’’خصوصی نظر ثانی‘‘ کےاگلے مرحلہ میں ووٹرس کو شہریت کا ثبوت پیش کرنا ہے اور اندیشہ ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ یہ ثبوت پیش نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بہار ہی نہیں جہاں کہیں بھی اس طرح کی ’’خصوصی نظر ثانی‘‘ ہوگی، نتائج یہی برآمد ہوںگے۔
عرضی گزاروں نےکمیشن کے ذریعہ طلب کردہ دستاویزات پر ایک بار پھر سوال اٹھاتےہوئے کہا کہ شہریت ثابت کرنے کا بوجھ شہریوں پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ کپل سبل نے جسٹس سوریہ کانت اور جوئے مالا باغچی کی بنچ میں کہا کہ لوگوں سے جو دستاویزت طلب کئے جارہے ہیں ،وہ ان کے پاس نہیں۔انہوںنے کہا کہ برتھ سرٹیفکیٹ، میٹرک کا سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ محدود لوگوں کے پاس ہی ہوتا ہے۔اس پر جسٹس کانت نے کہا کہ بہار بھی ہندوستان کا ہی حصہ ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ لوگوںکے پاس سرے دستاویز ہی موجود نہ ہوں۔بنچ نےالیکشن کمیشن کے اس موقف کا درست قرار دیا کہ آدھار کارڈ شہریت کا حتمی ثبوت نہیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ شہریوں کا نام ووٹرلسٹ میں شامل کرنا اور جو شہری نہیں ہیں ان کا نکالناالیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں ہے۔ سپریم کورٹ نے ا س سے بھی اتفاق کیا کہ محض حلفیہ طور پر یہ کہہ دیناکہ کوئی ہندوستان کا شہری ہے، کافی نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرانے کیلئے اب تک کا طریقہ کار یہی تھا کہ نام درج کروانےوالا فارم میں ہی حلفیہ دستخط یا انگوٹھا لگادیتا تھا کہ وہ ہندوستانی شہری ہے۔ بنچ نے کہا کہ ’’شہریت سے متعلق قانون بنانا پارلیمنٹ کا کام ہے اور جب قانون بن گیاتو یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ جو شہری ہے اس کا نام شامل رکھے اور جو نہیں ہے،اس کا نام ووٹر لسٹ سے نکال دے۔ ‘‘