Inquilab Logo

راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش اپوزیشن کے نشانہ پر

Updated: September 28, 2020, 7:50 AM IST | Mumtaz Alam Rizvi | New Delhi

جس وقت زرعی بل پاس کیا گیا اس وقت ایک بج چکا تھا اور راجیہ سبھا کی کاروائی کی مدت ختم ہو گئی تھی ، اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ دوسرے دن کارروائی ہو جبکہ ان کے مطالبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کی مدت کار میں چیئرمین نے نہیں بلکہ ڈپٹی چیئرمین نےتبدیلی کر دی ہیں اور بل کو پاس کراد یا

Harivansh
راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش جن پر اپوزیشن برہم ہے

پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں پاس کیے گئے تین زرعی بلوں کے معاملے میں اب بھی مودی حکومت اور راجیہ سبھا کے ڈپٹی چیئرمین ہری ونش اپوزیشن کے نشانے پر ہیں ۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ بلوں کو پاس کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے دستور کی خلاف ورزی کی گئی ہے ۔ مودی حکومت پر اپوزیشن کی جانب سے یہ الزام اس وقت عائد کیا جا رہا ہے کہ جب بلوں کے خلاف ملک گیر سطح پر کسانوں کی تحریک چل رہی ہے ۔ پنجاب اور ہریانہ میں کسان اب بھی دھرنے پر بیٹھے ہیں اور مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ بلوں کو واپس لیا جائے ۔ 
 اس دوران میڈیا کو  ایک ایسا ویڈیو فوٹیج مل گیا ہے جس میں مودی حکومت کی پول کھل رہی ہے ۔ حکومت سے اپوزیشن کی جانب سے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ایوان کے دستور پر عمل کیا جائے اور اس کی خلاف ورزی نہ کی جائے ۔ معلوم ہو کہ راجیہ سبھا دستور کے  اصول ۳۷؍ کے مطابق چیئرمین ایوان کی کارروائی کی مدت کار میں تبدیلی اتفاق رائے سے ہی کر سکتے ہیں جس کو ’’سنس آف دی ہائوس‘‘ کہا جاتا ہے ۔ جس وقت زرعی بل پاس کیا گیا تو اس وقت ایک بج چکا تھا اور راجیہ سبھا کی کاروائی کی مدت ختم ہو گئی تھی ، اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ دوسرے دن کارروائی ہو جبکہ ان کے مطالبہ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی کی مدت کار میں چیئرمین نے نہیں بلکہ ڈپٹی چیئرمین نے تبدیلی کر دی  اور بل  پا س کرادیا ۔
  اپوزیشن کے لیڈران اسی بات پر اعتراض کر رہے ہیں اور الزام عائد کر رہے ہیں کہ حکومت کی جانب سے من مانی کی گئی ہے اور دستور کو توڑا گیا ہے ۔اپوزیشن کی جانب سے دوسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت نے اصول ۲۵۲(۴)کی بھی خلاف ورزی کی ہے ۔ اس اصول کے تحت کسی بھی بل پر یا نوٹس پر ووٹنگ کرائے جانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔دستور کے مطابق چیئرمین کو اس مطالبہ کو ماننا چاہئے یعنی اگر ووٹنگ کا مطالبہ ہے تو اس پر عمل کیاجائے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ راجیہ سبھا میں ڈپٹی چیئرمین  سے ہم مطالبہ کرتے رہے کہ بل پر ووٹنگ کرائی جائے لیکن اس کو نظر انداز کیا گیا اور بل کو پاس کرا دیا گیا ۔ اپوزیشن کا تیسرا اعتراض بل کو سلیکٹ کمیٹی میں نہ بھیجنا ہے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجا جائے یا نہیں اس پر ہم ووٹنگ چاہتے تھے اور اس کا نوٹس بھی دیا تھا لیکن اس کو بھی نہیں مانا گیا۔ 
 اس سلسلہ میں سابق رکن پارلیمنٹ (راجیہ سبھا) م افضل سے انقلاب بیورو نے خصوصی گفتگو کی ۔بات چیت میں انھوں  نے کہا کہ بنیادی بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ  کے کچھ ضوابط ہوتے ہیں جن کے تحت کارروائی چلتی ہے ۔بل پاس ہوتے ہیں ، ڈپٹی چیئرمین نے کہا کہ لوگ اپنی سیٹ پر موجود نہیں تھے اس لیے ووٹنگ نہیں کرائی گئی جبکہ رول یہ ہے کہ اگر ایک بھی شخص ڈیویژن مانگتا ہے تو ڈیویژن کرانا لازمی ہے ۔ دو ممبر پارلیمنٹ مسلسل مطالبہ کر رہے تھے کہ ووٹنگ کرائی جائے لیکن نہیں کرائی گئی تو یہ دستور کی خلاف ورزی ہے ۔ 
 انھوں نے کہا کہ مودی حکومت کو شاید لگتا ہے کہ ہمارے پاس اکثریت ہے تو  اصول پر عمل کریں یا نہ کریں کیا فرق پڑتا ہے لیکن اس سے جمہوریت کو نقصان ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا اور ہمارے خیال سے پھر تو پارلیمنٹ کی ہی کوئی  ضرورت نہیں رہ جاتی ۔ انھوں نے کہا کہ کبھی سوچا ہے کہ ایک دن میں پندرہ پندرہ بل پاس ہوں گے ۔جب سے یہ حکومت آئی ہے تب سے کوئی بل نہ تو اسٹینڈنگ کمیٹی جا رہے ہیں اور نہ سلیکٹ کمیٹی میں جا رہے ہیں جبکہ اگر کسی بل میں کوئی تنازع ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کو کمیٹی میں بھیجاجائے تاکہ ا س پر غور و خوص ہو سکے ۔ م افضل نے کہا کہ ویسے تو اگراصول کے خلاف کارروائی ہوئی ہے تو چیئرمین کو دیکھنا چاہئے لیکن چیئرمین نے پہلے ہی ہاتھ کھڑے کر لیے ہیں ،اس لیے اب واحد راستہ ہے کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے ۔ ڈپٹی چیئرمین کا دعویٰ راجیہ سبھا کے فوٹیج کے برعکس

ڈپٹی چیئرمین کا دعویٰ راجیہ سبھا کے فوٹیج کے برعکس

گزشتہ اتوار کو راجیہ سبھا میں ۲؍زرعی بلوں کی منظوری کے دوران حزب اختلاف کے ووٹوں کی تقسیم کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے ڈ پٹی چیئرمین ہر ی ونش نے کہا تھاکہ ممبران نے ان کی نشستوں سے مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ایوان میں ہلچل کے دوران انہیں یہ کہتے سنا گیا کہ ممبروں کو  اپنے مطالبے کیلئےاپنی نشستوں پر رہنا ہوگا۔ لیکن راجیہ سبھا ٹیلی ویژن کے سرکاری فوٹیج میں اس کے حالات  ڈپٹی چیئر مین  کے دعوے  کے برعکس نظر آرہے  ہیں۔ انڈین ایکسپریس نے اس فوٹیج کا جائزہ لیا تو اس  میں سامنے آیا کہ اس دن جب ایوان کو ۱۵؍ منٹ کیلئے  ملتوی کیا گیا تھا تب دونوں ممبران پارلیمان  ڈی ایم کے کے تروچی سیوا اور سی اپی ایم سے کےکے رگیش ووٹوں کی تقسیم  کے مطالبے کے دوران اپنی نشستوں پر ہی تھے۔ دوپہر ایک بجےڈپٹی چیئرمین نے زراعت کے وزیر نریندر سنگھ تومر سے کہا ( جو ان دونوں بلوں پر بحث کا جواب دے رہے تھے ) کہ  ایک  بج  گیا ہے۔ اس پرپارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی نے ایوان میں توسیع کی تجویز پیش کی۔ اس پرڈپٹی چیئرمین نے پوچھا کہ کیا ایوان بل کے تصفیے تک بیٹھنے کو تیار ہے؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK