Inquilab Logo

رمضان: خانہ جنگی سے متاثر شام کے لوگ بے بسی کے عالم میں زندگی گزارنے پر مجبور

Updated: March 21, 2024, 5:55 PM IST | Damascus

خانہ جنگی سے متاثر ملک شام میں عوام بے بسی اور بے کسی کےعالم میں ماہ رمضان گزار نےپر مجبور۔ مکانوں کے کرائے میں اضافہ کے سبب بمباری میں خستہ حال ہو چکے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے دی جانے والی امداد بھی بند۔ بچے اپنی تعلیم ترک کرکے مزدوری کر رہے ہیں۔

Photo: X
تصویر: ایکس

شمال مغربی شام میں خاندان شدید معاشی بحران، کرائے میں اضافہ اور ۱۳؍ سال سے جاری خانہ جنگی کے پس منظر میں بمباری سے تباہ شدہ گھروں میں ماہ رمضان منا رہے ہیں۔ مقدس مہینے کے دوران مسلمان صبح سے شام تک بغیر کھائے پیئے رہتے ہیں، پھر غروب آفتاب کے بعد افطار کرتے ہیں۔ لیکن ملک شام میں لوگوں کو درپیش مشکلات میں سال بہ سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 
۴۸؍سالہ ابراہیم قاق نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’’یہ سال بہت زیادہ مشکل ہے کیونکہ ان عمارتوں میں بجلی اور پانی دستیاب نہیں ہے، اور ہم کھانا پکانے کے روایتی طریقے نہیں اپنا سکتے۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ مکان کسی بھی لمحے گر جائے گا کیونکہ اس سے پہلے ہوئے فضائی حملوں کی وجہ سے اس کی تمام دیواروں میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ اگر کوئی زلزلہ یا شدید بمباری ہوتی ہے تو یہ مکان گر سکتا ہے۔ ‘‘ 

 ابراہیم کو پانچ سال قبل مراۃ النعمان شہر سے بے گھر کر دیا گیا تھا اور وہ جنوبی ادلب کے جیریکو شہر میں آباد ہونے سے پہلے شمال مغربی شام میں پناہ گزین کیمپوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ ۸؍ ماہ قبل، اس کا کرایہ۲۵؍ ڈالر سے بڑھ کر ۴۰؍ ڈالر ہو گیا ہے، جس سے وہ اپنے خاندان کو خانہ جنگی کے اولین خطے کے قریب ایک بوسیدہ مکان میں منتقل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ 
 ابراہیم اور ان کے خاندان پر روزانہ بموں اور میزائلوں کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ متبادل کے طور پر بے گھر ہونے والے لوگوں کے کیمپ میں واپس جانا اور بھی برا ہوگا کیونکہ خیموں میں رہنے والے سردیوں اور گرمیوں کے مہینوں میں سخت موسم کا شکار ہوتے ہیں۔ 
ان کی اہلیہ، فاطمہ ام زکریا نے کہا کہ ’’ہم رمضان کی آمد سےغمزدہ ہو گئے کیونکہ اس میں خرچ بڑھ جاتا ہے جو ہم برداشت نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ نہیں ہے اور ہم اپنے پاس موجود تمام پیسے کھو بیٹھے ہیں۔ رمضان کے دوران، ہم رمضان کے خوبصورت ماحول میں کھانا پکانا اور رہنا پسند کرتے ہیں، لیکن جنگ نے ہمیں تھکا دیا ہے۔ ‘‘
مسلسل بگڑتے معاشی اور انسانی بحران کے ساتھ جاری خانہ جنگی کے اثرات نے بھی شمال مغربی شام میں قاق کے بچوں اور نوجوانوں کے خوابوں کو چھین لیا ہے۔ 

۲۰؍ سالہ عمر قاقا نے بتایا کہ ’’مَیں نے اسکول جانا چھوڑ دیا ہے کیونکہ ہم بے گھر ہوگئے تھے اور میں نے گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے اپنے بھائی کے ساتھ تعمیراتی صنعت میں کام کرنا شروع کردیا۔ میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کی امید کر رہا تھا لیکن ان حالات میں جس میں ہم رہتے ہیں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کا خاندان مراۃ النعمان میں اپنے گھر واپس جا سکے اور رمضان کی آمد پر اسی طرح خوشی منا سکےجس طرح جنگ سے پہلےمناتے تھے۔ 
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کا ورلڈ فوڈ پروگرام اس سال کے شروع میں امداد کی کمی کی وجہ سے شامی عوام کو دی جانے والی امداد کو معطل کرنے پر مجبور ہو گیا تھا، جس نے ایک ایسے ملک میں رہنے والے حالات کو مزید تباہ کر دیا ہے جہاں لاکھوں افراد کو خوراک تک مناسب رسائی نہیں ہے۔ امدادی اداروں کے مطابق شمال مغربی شام میں تقریباً ۶۰؍لاکھ لوگ رہتے ہیں جن میں سے تقریباً ۵۰؍فیصد بے گھر ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK