Inquilab Logo

مدرسوں کےمتعلق یوپی کے چیف سیکریٹری کی صدارت میں اعلیٰ سطحی میٹنگ

Updated: March 28, 2024, 10:43 AM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow

مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو غیر آئینی قراردینے کے ہائی کورٹ کے فیصلے پر تبادلہ خیال کیاگیا، متعلقہ محکموں سے ضروری تفصیلات طلب کی گئیں۔

Students reading Quran Sharif in Madrasa. Photo: INN
مدرسے میں طلبہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

یوپی کے مدرسوں سےمتعلق ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعداب اترپردیش حکومت بھی حرکت میں آگئی ہے۔ ریاست کے چیف سیکریٹری کی صدارت میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ لکھنؤ میں ہوئی جس میں ہائی کورٹ کے فیصلے پرتبادلہ خیال کیا گیا اور کچھ ضروری تفصیلات متعلقہ محکموں سے طلب کی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق عدالت کے فیصلے کے بعد پیداہوئی صورتحال کے سبھی پہلوؤں سےوزیراعلیٰ کو واقف کرایا جائے گا اور پھر ان کی ہدایت کے مطابق عمل آوری کویقینی بنایا جائے گا۔ دوسری جانب، مسلم دانشوروں کا ایک حلقہ مانتا ہے کہ سپریم کورٹ جانے سےقبل سیاسی تدابیر اور حکمت عملی کے تحت مسئلہ کا حل تلاش کیا جا نا چاہئے۔ حکومت کو اگربعض شرائط کے تحت راضی کرلیاگیا توقانونی لڑائی کا راستہ بھی آسان ہوجائےگا ورنہ حکومت پھر معاملہ سپریم کورٹ میں زیربحث ہونے کا حوالہ دےکرکوئی بھی بات ماننے سےانکار کرسکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اگرمدارس کے مسائل پرکوئی سنجیدہ پہل نہیں کرتی ہے تو بہ حالت مجبوری سپریم کورٹ جاناضروری ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ روزشام کے وقت اترپردیش کے چیف سیکریٹری درگا شنکرمشرا کی صدارت میں یوپی حکومت کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ لکھنؤ میں ہوئی جس میں بنیادی و ثانوی تعلیم کے محکمہ کے افسران کے ساتھ، محکمہ اقلیتی بہبود و مدرسہ بورڈ کے افسران نے بھی شرکت کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ ۲۲؍مارچ کوہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ۲۰۰۴ء کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے مدرسوں کے طلبا ءکو دیگر اسکولوں میں داخل کرانے کا فیصلہ سنایا تھا۔ جس کے بعد سے مسلم طبقے بالخصوص مدارس سے وابستہ افراد میں بےچینی و تشویش پائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں مدارس سے وابستہ ایک وفدنے لکھنؤ میں معروف عالم دین اورمسلم دانشورمولانا خالد رشیدفرنگی محلی سے اوردہلی میں جمعیت علماء کےرہنمامولانا محمودمدنی سےملاقات کی ہے اور ان سے موجودہ مسائل پرگفتگوکی ہے۔ مولانا خالدرشیدفرنگی محلی نے روزنامہ’انقلاب‘ کوبتایا کہ مسئلہ بہت سنگین ہے اوراس کے خلاف سیاسی و آئینی دونوں محاذوں پرجدوجہدکرنے کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسہ ایکٹ حکومت نے بنایا تھا اگراس میں کوئی خامی ہے تو اسے دورکرنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہی ہے، لہٰذا ارباب اقتدارسے بات چیت کرکے مسئلے کا حل تلاش کرنامناسب پہل ہوگی۔ مولانا کا کہنا ہے کہ جس طرح یوپی حکومت نے سنسکرت ایجوکیشن بورڈ قائم کیا ہے، ٹھیک اسی طرح مدرسہ بورڈ بھی ہے جس کا مقصد سنسکرت، عربی و فارسی زبانوں کا فروغ ہے، اگر سنسکرت بورڈآئینی ہے تومدرسہ بورڈغیرآئینی کیسے ہوسکتا ہے؟، یہ بات حکومت کے سامنے رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK