،اکھلیش یادو سے ملاقات کے بعد اعظم خان کا بیان، انہوں نے حکومتی زیادتیوں کا بھی ذکر کیا، کہاکہ اگر وہ زمین مافیا ہوتے تو لکھنؤ میں ان کی بھی کوٹھی ہوتی۔
دائیں سے عبداللہ اعظم ، اعظم خان اور اکھلیش یادو۔ تصویر: آئی این این
اترپردیش کی سیاست میں اعظم خاں اور اکھلیش یادو کی ملاقات نے ایک بار پھر نئی سیاسی حرارت پیدا کردی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور پارٹی کے سینئر لیڈر و سابق کابینی وزیر محمد اعظم خان کے درمیان جمعہ کو لکھنؤ میں اکھلیش یادو کی رہائش گاہ پر تقریباً پینتالیس منٹ تک بند کمرے میں گفتگو ہوئی۔ جیل سے رہائی کے بعد یہ اعظم خان کی اکھلیش سے دوسری ملاقات تھی۔ ذرائع کے مطابق، اس ملاقات میں ریاست کی سیاسی صورتِ حال، پارٹی کی آئندہ حکمتِ عملی اور اقلیتی ووٹ بینک کے تئیں لائحۂ عمل پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ ملاقات کے دوران اعظم خان کے بیٹے بھی موجود تھے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں کے سوال پر محمد اعظم خان نے کہا کہ انہوں نے اکھلیش یادو سے دل کی باتیں کیں اورجب دو ہم خیال سیاستداں ملتے ہیں تو معنی خیز گفتگو خود بخود ہوتی ہے، مخالف فریق اکثر اپنے سیاسی مفادات کے لئے بیانات دیتا ہے، ہر پارٹی کی اپنی سوچ اور نظریہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس گھر سے ان کا پچاس سال کا رشتہ ہے، ایسے رشتوں کو کمزور ہونے میں برسوں لگتے ہیں اور ٹوٹنے میں صدیاں۔ انہوں نے اکھلیش کے ساتھ ہوئی باتوں کی تفصیل بتانے سے انکار کیا اور حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتنا ظلم سہنے کے باوجود وہ زندہ ہیں اوراگر وہ زمین مافیا ہوتے تو لکھنؤ میں ان کی بھی کوٹھی ہوتی۔ انہوں نے یوگی حکومت کے اقدامات پر اپنا درد ظاہر کیا اور کہا کہ اگر ’تنخواہیا‘ کہنے سے ان کی رکنیت ختم ہوسکتی ہے اور انہیں تین سال کی سزا ہوسکتی ہے، اگر مرغی چوری کرنے پر ۲۱؍ سال کی قید اور ۳۰؍ لاکھ روپے کا جرمانہ ہوسکتا ہے تو حالات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ۲۰۲۷ء میں تبدیلی کی لہر آئے گی اور وہ اس کا حصہ ہوں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ بہار اسمبلی انتخابات کی تشہیری مہم میں اس لئے شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہاں کے حالات اب بھی جنگل راج کی طرح ہیں۔ ہتھیار رکھنے والے وہاں جا رہے ہیں اور میرے پاس سیکوریٹی نہیں ہے، حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی ریاست کو جنگل کہنا جمہوریت کی توہین ہے۔ ایسے الفاظ استعمال نہیں کئے جانے چاہئیں۔اکھلیش یادو نے اعظم خان سے ملاقات کے بعد ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’’نہ جانے کتنی یادیں ساتھ لائے، جب وہ آج ہمارے گھر آئے اور یہی میل ملاپ ہماری مشترکہ وراثت ہے۔‘‘واضح رہے کہ اکھلیش یادو سے ملاقات کرنے سے قبل اعظم خان سے جمعرات کو مختار انصاری کے بڑے بھائی و سابق ایم ایل اے صبغت اللہ انصاری نے بھی ملاقات کی۔ یہ ملاقات لکھنؤ کے لال باغ کے ایک پرائیویٹ ہوٹل میں ہوئی جہاں اعظم خان قیام پذیر تھے۔ اس موقع پر محمد آباد کے ایم ایل اے منّو انصاری اور سابق وزیر ابھیشیک مشرا بھی اعظم خان سے الگ الگ ملے۔
ذرائع کے مطابق، یہ ملاقاتیں محض رسمی نہیں بلکہ مسلم سیاست میں نئے اتحاد اور اشتراک کے امکانات کو جنم دے رہی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر اعظم خان، انصاری خاندان اور سماجوادی پارٹی ایک مشترکہ لائحۂ عمل بناتے ہیں تو اترپردیش کی اقلیتی سیاست میں بڑا تغیر ممکن ہے۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اعظم خان اور اکھلیش یادو کی یہ ملاقات ایک نئے عہدِ مفاہمت کی علامت ہے جس کے اثرات آئندہ ۲۰۲۷ء کے انتخابات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ ملاقات پارٹی کے اندرونی اختلافات کو کم کرنے، اقلیتی ووٹ بینک کو متحد کرنے اور یوپی کی سیاست میں نئی صف بندی کی راہ ہموار کرنے کا عندیہ دیتی ہے۔