اس کے والدین اسے اتنی دور بھیجنے پر آمادہ نہیں تھےمگر اُنہیں اعتماد میں لے کر اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ فی الحال وہ ممبئی کے ناناوتی اسپتال سے وابستہ ہے
EPAPER
Updated: September 16, 2025, 11:30 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
اس کے والدین اسے اتنی دور بھیجنے پر آمادہ نہیں تھےمگر اُنہیں اعتماد میں لے کر اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔ فی الحال وہ ممبئی کے ناناوتی اسپتال سے وابستہ ہے
بھنڈی بازار کی ڈاکٹرعافیہ محمد عارف سوتروالاکو ایم بی بی ایس کرنےکیلئے سی ای ٹی امتحان میں مطلوبہ مارکس نہیں ملےتھے، جس کی وجہ سے ممبئی کےمیڈیکل میں داخلہ ملنامشکل تھا،دوسرے دیگر شہروں کے میڈیکل کالجوں کی فیس اس کےبجٹ سے باہر تھی،ایسےمیں عافیہ نے بڑا اور ہمت والافیصلہ کیااور جارجیاکی یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرکےتقریباً ساڑھے ۵؍سال میں ،ایم بی بی ایس کےساتھ انٹرن شپ بھی مکمل کیا۔ممبئی لوٹ کر سیفی اسپتال(چرنی روڈ) میں بطور ڈاکٹر ڈیوٹی جوائن کی ،ساتھ ہی سرکاری اسپتالوںمیں خدمات کیلئے درکار لائسنس کیلئے بھی امتحان دیا۔ اس میں کامیابی حاصل کرکے وہ فی الحال ولے پارلے کےناناوتی اسپتال میں آرایم او کی حیثیت سے اپنی خدمات پیش کررہی ہے۔ وہ مزید پڑھائی کرنےکی متمنی ہے۔اس طالبہ کے بارےمیں انقلاب نے مفصل رپورٹ ۲۰۲۲ءمیں شائع کی تھی۔
واضح رہےکہ ڈاکٹر عافیہ محمد عارف نے ۲۰۱۶ء میں ایم بی بی ایس میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے والدین کے نہ چاہتے ہوئےانہیں سمجھاکر جارجیا میں پڑھائی کرنےکافیصلہ کیاتھا۔ وہاں اسے، ایسا کالج اور ہوسٹل ملا، جہاں حجاب، نمازاور روزے رکھنے کیلئے ماحول سازگار نہیں تھا، عافیہ نے اپنے دلائل سے انتظامیہ کو قائل کر کے مذہبی امور کیلئے اجازت حاصل کی تھی۔
ڈاکٹر عافیہ نے انقلاب کو بتایا کہ ’’ولسن کالج سے ۷۸؍ فیصد مارکس سےمیں نے ایچ ایس سی امتحان پاس کر کے سی ای ٹی امتحان دیا تھا، جس میں ۲۰۰؍میں سے ۱۷۲؍ مارکس ملے تھے، اتنے مارکس پر ممبئی کےمیڈیکل کالج میں داخلہ ملنا مشکل تھا۔ حیدرآباد اور پونےمیں مجھے داخلہ مل رہاتھا،مگر ان شہروں کے کالجوں کی فیس کی ادائیگی بھی میرے لئے مشکل تھی ۔ اس وجہ سے میں نے جارجیاجانے کافیصلہ کیا۔ والدین مجھے ۱۷؍سال کی عمر میں تنہابیرون ِملک بھیجنے پر آمادہ نہیں تھے، مگر انہیں اعتماد میں لے کر میں ۲۰۱۷ء میں جارجیا گئی، وہاں جس کالج میں میرا داخلہ ہوا، وہاں حجاب، نمازاور روزہ رکھنے کیلئے ماحول سازگار نہیں تھا، لیکن میںمایوس نہیں ہوئی ، میں نے انتظامیہ کو قائل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔وقت کےساتھ سب کچھ معمول پر آتا چلا گیا اور پھر یہ بھی ہوا کہ مجھے طلبہ کی تنظیم کا صدر بننے کاموقع ملا۔‘‘
عافیہ کی والدہ سے بھی انقلاب نے گفتگوکی۔ وہ اپنی بیٹی کی کامیابی پر بہت خوش اور بیٹی کےفیصلہ سےپوری طرح متفق ہیں۔ جب ان سے یہ سوال کیاگیاکہ ،عافیہ کوپڑھائی کیلئے تنہا بیرونِ ملک کیوں نہیں بھیج رہی تھیں ؟ ا س کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں دینی ماحول ہے ،حجاب ،نماز اور روزے کی پابندی ہے ، لہٰذا ایسے میں بیٹی کو بیرونی ملک تنہابھیجناہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ، علاوہ ازیں صرف ۱۷؍سال کی عمر میں بیٹی کو تنہا اتنی دور بھیجنے کا فیصلہ کس دل سےکرتی! اسلئے ہم مطمئن نہیں تھے، لیکن آج اگر وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہے تو اپنی ہمت اور حوصلے سے ہے، ہم اس کیلئے دعاگوہیں۔‘‘