• Wed, 19 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یاد ہے فاروق ماپکر؟ ممبئی فسادات میں پولیس کی زیادتی کیخلاف قانونی جنگ لڑنے والا چہرہ

Updated: November 18, 2025, 10:03 PM IST | Shahab Ansari | Mumbai

تقریباً ۳۲؍ برس بعد بھی سرکاری نظام سے اب تک وہ قانونی جنگ جیت نہیں سکے ہیں لیکن اپنے تجربات کی بنیاد پر دوسروں کی مدد کرنے لگے ہیں، ان کی آخری پٹیشن ۷؍ برسوں سے شنوائی کی منتظر ہے

The legal battle started by Farooq Mapakar is still ongoing after 32 years.
فاروق ماپکرنے جو قانونی جنگ شروع کی تھی وہ ۳۲؍ سال بعد اب بھی جاری ہے

یاد ہے فاروق ماپکر، جو ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے دوران ۱۹۹۳ء میں پولیس نے وڈالا میں واقع ہری مسجد میں گھس کر گولی ماری تھی اور یہ کہتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا تھا کہ وہ سڑک پر فساد  برپا کررہے تھے۔ اگرچہ اس دوران پورے شہر میں سیکڑوں افراد پولیس کی گولیوں سے شہید اور زخمی ہوئے تھے لیکن فاروق ان چنندہ افراد میں شامل ہیں جنہوں پولیس کی زیادتیوں کے خلاف قانونی جنگ شروع کی جو تقریباً ۳۲؍ برس بعد اب بھی جاری ہے۔ اب وہ اپنے تجربات کی بناء پر سماجی رضاکار کی حیثیت سے بھی کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے ان کی ایک علیحدہ شناخت بن گئی ہے۔
 فاروق کوکن مرکنٹائل بینک میں ’پیون‘ تھے اور ۲۰۲۴ء میں ۶۱؍ سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس دوران ان کی بیٹی بینک میں اور بیٹا نجی ملازمت کرنے لگے ہیں۔ فاروق کی ایمانداری اور لگن کو دیکھتے ہوئے بینک نے انہیں سبکدوشی کے بعد بھی کانٹریکٹ پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی جس کی وجہ سے ان کا ذاتی روزگار کا بڑا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی ۳۷؍ برسوں کی خدمت کے اعتراف میں اسی سال ستمبر میں بینک کی سالانہ میٹنگ میں فاروق کو اعزاز سے نوازا گیا ۔ بحیثیت سماجی خدمتگار فاروق نے جولائی میں ریاستی وزیر نتیش رانے کے خلاف ان کے مسلم مخالف بیان کی وجہ سے پرائیویٹ کمپلینٹ کی تھی جس پر بیان لینے کیلئے انہیں پولیس اسٹیشن بلایا گیا تھا۔ اس سے قبل وہ نارائن رانے کی بیان بازی پر ان کے خلاف بھی شکایت کرچکے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے حقوق کیلئے نکالی جانے والی ریلیوں وغیرہ میں بھی شریک ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس کام کیلئے چھٹی لینی پڑے تو وہ ایک دن کی تنخواہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔
 یاد رہے کہ ہری مسجد میں پولیس کی فائرنگ سے ۶؍ افراد شہید ہوئے تھے اور خود فاروق ماپکر کو بھی گولی لگی تھی مگر انہیں دیگر ۵۷؍ افراد کے ساتھ فساد برپا کرنے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔ جسم میں گولی پیوست رہتے ہوئے فاروق کو پولیس تحویل میں رکھا گیا لیکن ضمانت پر رہا ہونے کے بعد انہوں نے نمازیوں پر گولی چلانے والے پولیس افسر نکھل کاپسے اور ان کے ساتھی پولیس اہلکاروں کیخلاف شکایت درج کروائی تھی۔ بعد میں انہیں فساد برپا کرنے کے کیس سے بری کردیا گیا۔
 فسادات کی تحقیقات کرنے والے سبکدوش جسٹس بی این سری کرشنا کمیشن نے بھی اپنی رپورٹ میں نکھل کاپسے پر عائد الزامات کو درست قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ پولیس نے بغیر کسی جائز وجہ کے ہری مسجد میں فائرنگ کی تھی۔
 البتہ مقامی پولیس سے اس معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیق کی امید نہیں تھی اس لئے فاروق نے بامبے ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ اس معاملے کی تفتیش سی بی آئی کو سونپی جائے۔ ٹال مٹول کے باوجود ہائی کورٹ کے حکم پر سی بی آئی کو ۲۰۰۸ء میں اس معاملے کی تفتیش اپنے ہاتھ میں لینی پڑی۔ تاہم سی بی آئی نے دسمبر ۲۰۱۱ء میں مجسٹریٹ کورٹ میں یہ کہتے ہوئے ’کیس کلوزر رپورٹ‘ داخل کردی کہ انہیں ایسا کوئی قابل اعتماد گواہ یا ثبوت نہیں ملا جس کی بنیاد پر نکھل کاپسے اور دیگر پولیس اہلکاروں پر بلا وجہ فائرنگ کرنے کے الزام کی تصدیق ہوسکے۔
 مجسٹریٹ نے سی بی آئی کی درخواست کو قبول کرتے ہوئے کیس بند کردیا تھا اور فاروق نے ۲۰۱۸ء میں اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد کورونا وباء پھیل گئی اور لاک ڈائون کی وجہ سے عدالتی کام کاج متاثر ہوگیا اس لئے اس پٹیشن پر کبھی ٹھیک سے سماعت نہیں ہوسکی اور گزشتہ چند سال سے تو اس پر شنوائی ہوئی ہی نہیں ہے۔ اس تعلق سے فاروق ماپکر نے انقلاب سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’میں انتظار کررہا ہوں کہ عدالت میں میری پٹیشن سماعت کیلئے لسٹ ہو تو معاملہ آگے بڑھے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK