Inquilab Logo

معروف صحافی اور’آزاد ہند‘ کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی کا انتقال

Updated: October 03, 2022, 12:19 PM IST | Lucknow

؍۲۱؍ویں صدی کی اردو صحافت کے امام ،معروف عالم دین مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کےفرزند،سابق رکن راجیہ سبھا اور غالب ایوارڈیافتہ احمد سعید ملیح آبادی(۹۲) نے طویل علالت کے بعد سنجے گاندھی پی جی آئی میں داعیٔ اجل کولبیک کہہ دیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔

Saeed Ahmed Malih Abaadi .Picture:INN
مرحوم احمد سعید ملیح آبادی۔ تصویر:آئی این این

؍۲۱؍ویں صدی کی اردو صحافت کے امام ،معروف عالم دین مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کےفرزند،سابق رکن راجیہ سبھا اور غالب ایوارڈیافتہ احمد سعید ملیح آبادی(۹۲) نے طویل علالت کے بعد سنجے گاندھی پی جی آئی میں داعیٔ اجل کولبیک کہہ دیا اور اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔وہ کافی مدت سےبلڈ کینسرکے مہلک مرض میںمبتلا تھے۔تجہیز و تکفین پیر کی صبح ان کے آبائی قصبہ ملیح آباد میںشروع ہوگی جبکہ تدفین بعد نماز ظہر ان کی والدہ کےبازو میں ہوگی ۔ان کے سانحۂ ارتحال کی خبر جیسے ہی عام ہوئی ملیح آباد سے لے کر کلکتہ اور ملک کے محبان اردو میں غم کی لہر دوڑ گئی۔ انقلاب کےبارہ بنکی کے نمائندے ،مرحوم کے سگےبھانجے محمد طارق خاں سے موصولہ اطلاع کے مطابق۸؍ستمبر کو ان کی حالت زیادہ خراب ہونے پر ان کو وینٹی لیٹر پررکھا گیا۔جہاں دوران علاج اتوار کی سہ پہر۴؍ بجے انہوںنے آخری سانس لی ۔  روزنامہ’ آزاد ہند‘ کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی کاشمار جدید اردو صحافت کے معماروں میں ہوتا ہے۔ اپنےسنجیدہ اور فکر انگیز اداریوں کے سبب انھیں بہت احترام سے دیکھا جاتا تھا۔  وہ بیک وقت مدیر، دانشور اوراعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔تقریباً  ۳۶؍ سال تک روزنامہ آزاد ہند ان کی ادارت اور ملکیت میں شائع ہوا۔ان کے اداریوں نے کم از کم دو نسلوںکو متاثر کیا۔احمد سعید ملیح آبادی ، لکھنو کے قریب ملیح آباد کے ایک پٹھان خاندان میں۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔ صحافت انھیں ورثے میں ملی تھی۔ فکر و عمل کے اسی توازن کا نتیجہ ہے کہ انہیں راجیہ سبھاکےالیکشن میں بطو ر آزاد امیدوار سیاست کے دو متضاد دھاروں کانگریس اورکمیونسٹ فرنٹ کے ایک ساتھ ووٹ ملے اور مغربی بنگال سے منتخب ہونے والےامیدواروں میں سب سےزیادہ ووٹوں سے کامیاب قرارپائے۔احمد سعید ملیح آبادی نے اردو صحافت کے بے لوث خدمت گار کی حیثیت سے قومی اتحاد،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور سماجی بہبود کیلئےبھی انتھک کام کیاجس کے اعتراف میں انہیں درجنوں سرکاری، نیم سرکاری اور صحافتی تنظیموں کاعہدیدار اور رکن بنایا گیا، ان میں آل انڈیا ایڈیٹرس کانفرنس کی نائب صدارت، نیشنل کونسل برائے فروغ انسانی وسائل، مغربی بنگال اردو اکادمی، کلکتہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی سینٹ اور کورٹ کی رکنیت نیز ٹی۔وی۔، ریڈیو اور ریلوے ایڈوائزری کمیٹیوں کی ممبرشپ اور ہند و بیرون ہند کی درجنوں کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت قابل ذکر ہے، اردو صحافت کی گرانقدر خدمات کیلئےانہیں ملک کے باوقار ’غالب ایوراڈ‘ اور ’برلاایوارڈ‘ کے علاوہ مغربی بنگال نیز مدھیہ پردیش اردو اکادمیوں کے اعلیٰ ’صحافتی‘ اعزازات سے سرفراز کیاجاچکاہے، اسی طرح وہ بحیثیت مبصر قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں ملک کے کئی صدور جمہوریہ اور وزرائے اعظم کے ہمراہ شرکت کی، سماجی اور پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے اس تابناک ریکارڈ کے بعد راجیہ سبھا میں داخلہ سے وہ پارلیمانی سیاست سے بھی جڑ گئےتھے۔ پچھلے دنوںان کی خودنوشت میری صحافتی سرگزشت شائع ہوئی تھی۔ اس سے قبل ماہنامہ’ انشاء‘ کلکتہ نے ان پر ضخیم نمبر شائع کیا تھا۔

lucknow Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK