ممبئی میونسپل کارپوریشن( بی ایم سی )کی جانب سے منعقدہ ایک تازہ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ممبئی کے دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ میں زہریلے مادوں کی علامتی مقدار، مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی مقررہ حد سے چار گنا تک زیادہ ہے۔
EPAPER
Updated: June 09, 2025, 6:02 PM IST | Mumbai
ممبئی میونسپل کارپوریشن( بی ایم سی )کی جانب سے منعقدہ ایک تازہ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ممبئی کے دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ میں زہریلے مادوں کی علامتی مقدار، مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی مقررہ حد سے چار گنا تک زیادہ ہے۔
ممبئی میونسپل کارپوریشن( بی ایم سی )کی جانب سے منعقدہ ایک تازہ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ ممبئی کے دیونار ڈمپنگ گراؤنڈ میں زہریلے مادوں کی علامتی مقدار، مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی مقررہ حد سے چار گنا تک زیادہ ہے۔یہ تشخیص ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکام، دھاراوی (دنیا کے سب سے بڑے سلم ری ڈویلپمنٹ منصوبوں میں سے ایک) سے بے گھر ہونے والے کچھ رہائشیوں کو دیونار لینڈ فل کے علاقے میں ایک مقام پر منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں، بشرطیکہ وہاں صفائی ہو جائے۔ممبئی کے مشرقی مضافات میں واقع دیونار کا یہ علاقہ ۳۲۶؍ ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہ ہندوستان کا سب سے قدیم اور بڑا کوڑا خانہ ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ یہاں جمع شدہ کچرے کا ڈھیر ۳۵؍ سے۴۰؍ میٹر (تقریباً۱۲؍ منزلہ عمارت کے برابر) بلند ہے اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس میں تقریباً ایک کروڑ ۸۵؍ لاکھ میٹرک ٹن ’’لیگیسی ویسٹ‘‘(یعنی طویل عرصے سے جمع شدہ اور پرانا کوڑا کرکٹ) موجود ہے۔
پہلے بھی کئی تحقیقات میں، کوڑے خانے سے نکلنے والی پارے (مرکری) جیسی زہریلی دھاتوں اور نقصان دہ گیسوں کے قریبی آبادیوں پر اثرات کے بارے میں خدشات ظاہر کیے جا چکے ہیں۔دی انڈین ایکسپریس کے حوالے سے، بی ایم سی کے زیر انتظام تیار کردہ کوڑے کی خصوصیات کی رپورٹ میں اہم ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے مادوں جیسے حیاتی کیمیائی آکسیجن کا تقاضا ، کیمیائی آکسیجن کا تقاضا، اور کل گھلے ہوئے ٹھوس مادے کی مقدار کا جائزہ لیا گیا۔ یہ مقدار خود کوڑے میں اور( لیچیٹ) سڑتے ہوئے کوڑے کے ڈھیروں سے رسنے والا زہریلا سیال) میں ناپی گئی۔بی او ڈی )یہ ایئروبک (آکسیجن کی موجودگی والے) حالات میں نامیاتی مادوں کو توڑنے والے خرد حیاتیات کے استعمال کردہ آکسیجن کی مقدار کو ظاہر کرتا ہے۔ ( سی او ڈی) یہ نامیاتی مادوں کو کیمیائی طور پر آکسیڈائز کرنے کے لیے درکار کل آکسیجن کی پیمائش کرتا ہے۔(ٹی ڈی ایس) یہ پانی میں گھلے ہوئے نامیاتی اور غیر نامیاتی دونوں طرح کے مادوں کی کل مقدار کی پیمائش ہے۔ماحولیاتی آلودگی کی شدت کو سمجھنے کے لیے یہ تینوں پیمائشیں نہایت اہم ہیں، جن کی بلند سطحیں زہریلے پن کی زیادہ مقدار کی علامت ہوتی ہیں۔
مطالعے میں لیچیٹ میں بی اوڈی کی اوسط سطح ۳۹۰؍ ملی گرام فی لیٹر ریکارڈ کی گئی۔ دی انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کے برعکس زمین کے لیے مقررہ حد صرف ۱۰۰؍ملی گرام فی لیٹر اور پانی کے لیے محض ۳۰؍ملی گرام فی لیٹر ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سی او ڈی کی اوسط سطح ۱۰۰۲؍ ملی گرام فی لیٹر تھی، جبکہ پانی کے لیے منظور شدہ حد ۲۵۰؍ ملی گرام فی لیٹر ہے۔ مزید برآں، ٹی ڈی ایس کی سطح اوسطاً ۶۵۵۰؍ملی گرام فی لیٹر ناپی گئی — جو کہ ۲۱۰۰؍ ملی گرام فی لیٹر کی معیاری حد سے کہیں زیادہ ہے۔رپورٹ میں یہ بھی اشارہ کیا گیا کہ کوڑے کا ایک بڑا حصہ (۳۰؍ فیصدسے ۵۰؍ فیصد تک) ’’غیر فعال فضلہ‘‘ پر مشتمل ہے، جیسے غیر حیاتیاتی طور پر گلنے سڑنے والے مواد اور تعمیراتی ملبہ۔ دی انڈیئن ایکسپریس نے مطالعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’اس قسم کے کوڑے کو ٹھکانے لگانا اور اس کا انتظام کرنا چیلنج کا باعث ہے کیونکہ اس کی گلنے سڑنے کی شرح بہت کم ہے۔‘‘
میونسپل ہدایت کے مطابق، یہ تشخیص ۲۰۲۳ءمیں این ای ٹی ای ایل انڈیا لمیٹڈ نے این ایم کنسلٹنٹس اور ایس کے ڈبلیو سول اینڈ سرویز کے اشتراک سے کی تھی۔ نتائج مئی میں ظاہر کیے گئے، تقریباً اسی وقت جب بی ایم سی نے اس سائٹ کے ’’حیاتی علاج‘‘ کیلئے ۲۳۶۸ء کروڑ کا ٹینڈر اعلان کیا۔ اس عمل میں آلودہ علاقوں کو صاف کرنے کے لیے خرد حیاتیات یا دیگر حیاتیاتی طریقوں کا استعمال شامل ہے، جس کی تکمیل کا ہدف تین سال ہے۔سولڈ ویسٹ مینجمنٹ کے نگران ڈپٹی میونسپل کمشنر کرن دگھاؤکر نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا: ’’ٹینڈر دستاویز میں ذکر کیا گیا ہے کہ لیگیسی ویسٹ بشمول لیچیٹ کو پروسیس کرنے کا طریقہ کار، اس ٹھیکیدار کے ذریعے تجویز کیا جائے گا جسے ٹھیکہ دیا جائے گا۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’ٹھیکیدار کے تجویز پیش کرنے کے بعد، ہم (برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن) اس کا تجزیہ کریں گے اور اگر ضرورت پڑی تو کسی معروف ایجنسی کے ذریعے پیشگی تجربے کا عمل انجام دیا جائے گا۔ جب ہم طریقہ کار کو منظور کر لیں گے، تب زمین پر کام شروع ہوگا۔ دگھاؤکر نے یہ بھی بتایا کہ ٹھیکیدار کے حتمی انتخاب کی توقع ۲۳؍جون تک ہے۔
دریں اثناء دھاراوی کی تعمیر نو ایک اسپیشل پرپز وہیکل کے ذریعے کی جا رہی ہے، جس میں اڈانی گروپ کا ۸۰؍ فیصدحصہ ہے، جبکہ مہاراشٹر حکومت کے پاس باقی۲۰؍ فیصد حصہ ہے۔اس بڑے پیمانے پر تعمیر نو کا مقصد نہ صرف کچی آبادیوں کے رہائشیوں کی بحالی ہے بلکہ اس علاقے میں موجودہ ڈھانچوں کی تعمیر نو اور سیوریج اور پانی کے بنیادی ڈھانچے جیسی ضروری سہولیات کو بہتر بنانا بھی ہے۔ دھاراوی دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادیوں میں سے ایک ہے۔تاہم، جب تک پوری تعمیر نو مکمل نہیں ہو جاتی — جس میں دہائیوں کا عرصہ لگنے کا تخمینہ ہے — ریاست نے فیصلہ کیا ہے کہ آبادی کے کچھ حصے کو ممبئی کے مختلف حصوں میں عارضی طور پر دوبارہ آباد کیا جائے۔جن لوگوں کو دھاراوی کے اندر نئی رہائش کے لیے ’’نااہل‘‘ قرار دیا گیا ہے — بشمول وہ رہائشی جو جھگیوں کی بالائی منزلوں پر رہتے ہیں یا جنہوں نے سال ۲۰۰۰ء کے بعد گھر بنائے ہیں — انہیں مستقل طور پر دیونار کوڑے خانے والی جگہ پر منتقل کیا جائے گا، جو تقریباً ۱۲؍ کلومیٹر دور واقع ہے۔