Inquilab Logo

شہرومضافات میں بچہ چوری کی افواہیں گرم، پولیس نے تردید کی

Updated: September 18, 2022, 11:15 AM IST | Shahab Ansari and Nadeem asran | Mumbai

جوگیشوری، کرلا، وڈالااور ممبرا وغیرہ میںواٹس ایپ پر بچہ چوری کی جھوٹی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں جبکہ پولیس کے پاس اب تک ایسی کوئی شکایت نہیں آئی ہے، البتہ پولیس نے حفاظتی اقدامات کئے

Mumbra Police Station Senior Inspector Ashok Kadlag talking to teachers
ممبرا پولیس اسٹیشن کے سینئر انسپکٹراشوک کڈلگ اساتذہ سے گفتگو کرتے ہوئے ( تصویر: انقلاب)

ندیم عصران  اور شہاب انصاری
ممبئی: ممبئی اور مضافات میں بچوں کے چوری ہونے کی افواہوں کا بازار اچانک گرم ہوگیا ہے۔اس کے سبب گلی محلوں اور سوسائٹیوں میں والدین اپنے بچوں کی حفاظت کے تئیں فکر مند  ہیں۔ سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے مختلف میسیج نے ان افواہوں میں آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا ہے جسکی وجہ سے صرف والدین ہی نہیں بلکہ اساتذہ ، حتیٰ کہ خود بچوں میں بھی دہشت کا ماحول ہے۔جو میسیج سوشل میڈیا پر گشت کررہے ہیں بظاہر خود والدین اور اساتذہ انہیں بطور خیر خواہی  وسیع پیمانے پر پھیلارہے ہیں تاکہ عوام حالات سے آگاہ رہیں اور اپنے بچوں کے حفاظتی اقدامات کرسکیںلیکن  اس کوشش میں میسیج بھیجنے والے اس بات کو  نظر انداز کربیٹھے ہیں کہ اس طرح کے میسیج کی تصدیق کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ بیشتر لوگ بغیر کسی تحقیق کے آنکھ بند کرکے ان میسیج کو درست مان کر وسیع پیمانے پر پھیلارہے ہیں۔
بچہ چوری کی کسی واردات کی تصدیق نہیں ہوئی 
 سوشل میڈیا کے علاوہ زبانی طور پر بھی لوگ فون پر اور ذاتی ملاقاتوں میں اسی موضوع پر بات چیت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ان گفتگو اور میسیج کی وجہ سے اس طرح کی افواہ پھیل گئی ہے کہ اندھیری، کرلا، وڈالا اور ممبرا  جیسے کئی علاقوں کی اسکولوں سے متعدد بچے اغوا کرلئے گئے ہیں یا کسی نہ کسی اسکول کے باہر سے بچوں کو اغواء کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن کہیں سے بھی ان باتوں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ کسی اسکول سے کوئی بچہ لاپتہ یا اغوا ہوا ہے یا اس طرح کی کوشش ہوئی ہے۔
کس طرح کی افواہیں گشت کر رہی ہیں
 جو آڈیو میسیج عام طور پر گشت کررہے ہیں ان میں ایک میں ممبئی کے مضافاتی علاقے کی ایک سوسائٹی کے ’بیس منٹ‘ (تہہ خانہ) سے بچے اغوا ہونے کی اطلاع دی جا رہی ہے۔ جبکہ ایک دیگر آڈیو میں ایک اسکول کے باہر سے بچے اغوا ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ جبکہ ایک میسیج میں ایک خاتون اپنا تعلق گجرات سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے پورے ملک سے بچے اغوا   کئے جانے کی بات کررہی ہے اور لوگ ان میسیج کو بغیر کسی  تصدیق کے بڑے پیمانے پر شیئر کررہے ہیں۔
جلوس میں جانے والے بچے کا پیغام گشت کر رہا ہے  
 ایک پیغام ممبرا کے عبداللہ پٹیل اسکول  کے طالب علم کے گم ہونے کا بھی گشت کر رہاہے جس میں ۲؍ موبائل نمبر بھی دیئے گئے ہیں، نمائندۂ  انقلاب نے جب ان نمبروں پر رابطہ قائم کیا تو بچہ کے بھائی نے بتایاکہ ’’جس وقت ۱۰؍ سالہ لڑکا اسکول گیا تھا اسی دوران محرم کا جلوس گزر رہا تھا۔ لہٰذا وہ بھی اس جلوس کے ساتھ ممبئی پہنچ گیا تھا البتہ دوسرے روز وہ گھر لوٹ آیا ہے۔  اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھااور نہ ہی وہ گم ہوا تھا۔ اس کے بہ حفاظت لوٹنے کے بعد ہم نے ممبرا پولیس اور اسکول دونوں کو مطلع کر دیا تھا۔‘‘بچہ چوری  کی افواہیں اس قدر گشت کر رہی ہیں کہ ممبرا میونسپل اسکول کے پاس بچہ چور ہونے کے شبہ میں ۲؍ خواتین کی مقامی خواتین نے پٹائی کر دی تھی ۔
ممبرا پولیس نے اسکول انتظامیہ کی میٹنگ لی
  سرپرستوںکی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ممبرا کے سینئر پولیس انسپکٹر اشوک کڈلگ نے ممبرا کوسہ کے اسکولوں کے انتظامیہ کی ایک میٹنگ طلب کی جس میں   یہ یقین د لایا گیا کہ ممبرا میں بچہ چوری کی کوئی واردات نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی گروہ سرگرم ہے۔ البتہ اسکولوں کے اطراف پولیس کا گشت بڑھا یاگیا ہے۔افسر نے اسکول انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ احتیاط کے طور  پر  طلبہ کو ان کے سرپرستوں  ہی کے سپرد کریں اور اسکول کے اطراف سی سی ٹی وی کیمرہ نصب کریں۔ سینئر انسپکٹر نے عوام کو انتباہ دیا کہ اگر کوئی افواہ پھیلائے گا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔اس طرح کے میسیج سے پیدا ہونے والے دہشت کے ماحول سے پریشان جوگیشوری میں واقع مدنی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر عامر انصاری نے امبولی پولیس اسٹیشن جاکر تحریری درخواست دی تھی کہ ان کی اسکول کے قرب و جوار میں پٹرولنگ بڑھا دی جائے تاکہ طلبہ اور ان کے والدین کے دل و دماغ سے خوف کم ہو سکے۔ پرنسپل عامر انصاری کے مطابق پولیس نے انہیں بتایا کہ بچوں کے اغواکا کوئی معاملہ ان کی حدود میں نہیں ہوا ہے البتہ پولیس نے اس علاقے میں گشت بڑھانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
 یاد رہے کہ ممبئی میں صرف گزشتہ ہفتے سنیچر کو گورنمنٹ ریلوے پولیس نے بوریولی ریلوے اسٹیشن کے باہر سے ایک ۳۳؍ سالہ خاتون کو بچہ چوری کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور اس کی ۱۰؍ اور ۱۷؍ سالہ نابالغ بیٹیوں کو بھی بچہ چوری میں اپنی ماں کی مدد کرنے کے الزام میں تحویل میں لیا تھا۔اس کے علاوہ ممبئی میں اغوا کا کوئی دیگر معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔
تصدیق کے بغیر کوئی پیغام فارورڈ نہ کریں:ممبئی پولیس 
 بچوں کے اغوا اور چوری سے متعلق سوشل میڈیا خصوصاً واٹس ایپ کے ذریعہ پھیلائے جانے والے پیغامات سے متعلق زون۲؍ کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ’’ اول تو شہر میں بچہ چوری کی وارداتوں سے متعلق کوئی ویڈیو اور آڈیو واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا ذرائع سے آپ تک پہنچتا ہے تو پہلے خود تصدیق کرلیں کہ اس میں کتنی صداقت ہے یا کم سے کم اس سے نزدیکی پولیس کو باخبر کردیں۔ عوام کو ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے صرف بچوں کے اغوا یا چوری سے متعلق  ہی نہیں بلکہ منافرت پھیلانے والے پیغامات اور ویڈیو سے بھی پولیس کو باخبر کرنا چاہئے ۔ ہر چند کہ ممبئی سائبر سیل اور سائبر پولیس بذات خود ایسے ویڈیو اور پیغامات کو بلاک کرتی رہتی ہے لیکن پولیس کی عوام سے یہ اپیل ہے کہ وہ گمراہ کن ویڈیو اور آڈیو چاہے وہ بچوں کے اغوا یا چوری کے تعلق سے ہی کیوں نہ ہوں تصدیق کے بغیر دیگر لوگوں سے شیئر نہ کریں۔‘‘ 
پولیس بچوںکے تحفظ کے اقدام کرتی ہے 
  افسر نے مزید بتایاکہ’’ جہاں تک بچوں کے تحفظ کی بات ہے اس سلسلہ میں پولیس ریویو میٹنگ میں اس طرح کی خبروں کا جائزہ لے کر تحفظ کے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خصوصی طور پر اسکول انتظامیہ سے تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے اور احتیاطی تدابیر کے تحت طلبہ کو اسی وقت والدین یا ان کے جاننے والوں کے حوالے کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے جنہیں بچہ جانتا ہے اور جو روز بچے کو لینے آتا ہے۔‘‘
افواہ پھیلانے والوں کو ۳؍ سال کی قیدہو سکتی ہے
  افسر کے بقول جہاں تک افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کی بات ہے تو قانون کی رو سے افواہ پھیلانے والے کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ ۵۰۵؍کے تحت سخت کارروائی کی جاتی  ہےجس میں جرم ثابت ہونے پر ۳؍ سال قید یا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے یا دونوں سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ یاد رہے کہ اس طرح کی افواہیں صرف ممبئی اور اطراف میں نہیں سنی گئی ہیں بلکہ اطلاع کے مطابق دیگر ریاستوں خصوصاً اتر پردیش میں بھی ایسے پیغامات عام کئے جا رہے ہیں۔ 

mumbra Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK