Inquilab Logo

یوکرین کی مدد کیلئے ناٹو کی فوج بھیجنے کی تجویز، پوتن کی جوہری جنگ کی دھمکی

Updated: February 29, 2024, 9:03 PM IST | Moscow

روس یوکرین جنگ کا ۷۳۶؍ واں دن۔ ناٹو ممالک کی فوج یوکرین میں بھیجنے کی تجویز کے بعد پوتن نے جوہری جنگ کی دھمکی دی۔ گزشتہ دنوں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے یوکرین میں ناٹو فوج بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے واضح کیا کہ اگر ایسا ہوا تو روس کے جوہری ہتھیار مغربی ممالک کے اہداف پر تعینات ہیں۔

Russian President Vladimir Putin during the speech. Photo: PTI
روسی صدر ولادیمیر پوتن خطاب کے دوران۔ تصویر: پی ٹی آئی

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے مغربی ممالک کو متنبہ کیا کہ ’’انہوں نے یوکرین میں جنگ لڑنے کیلئے فوج بھیجی تو وہ جوہری جنگ کے خطرہ کے ذمہ دار ہوں گے۔ ‘‘ اور خبردار کیا کہ ماسکو کے پاس ایسے ہتھیار ہیں جو مغرب میں اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ 
خیال رہے کہ یوکرین جنگ نے ۱۹۶۲ءکیوبا کے میزائل بحران کے بعد سے مغرب کے ساتھ ماسکو کے تعلقات میں بدترین بحران پیدا کر دیا ہے۔ پوتن اس سے قبل ناٹو اور روس کے درمیان براہ راست تصادم کے خطرات کے تعلق سےبات کر چکے ہیں لیکن جمعرات کو ان کی جوہری حملہ کی وارننگ ان کی سنگین ترین وارننگ تھی۔ 
قانون سازوں اور ملک کی اشرافیہ کے دیگر ارکان سے خطاب میں ۷۱؍سالہ پوتن نے اپنے الزام کو دہرایا کہ ’’مغرب روس کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے، ‘‘اور انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’مغربی لیڈر یہ نہیں سمجھتے کہ روس کے اپنے اندرونی معاملات میں ان کی مداخلت کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ ‘‘
پوتن نے جوہری حملے کی دھمکی ایک خاص تجویز کے پس منظر میں دی جو پیر کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے پیش کی تھی جس میں یورپی ناٹو کے اراکین کو یوکرین کی حمایت میں زمینی فوج بھیجنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس تجویزکو امریکہ، جرمنی، برطانیہ اور دیگر نے فوری طور پر مسترد کر دیا تھا۔ 
 پوتن نے کہا ’’انہیں (مغربی ممالک) یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے پاس ایسے ہتھیار بھی ہیں جو ان کی سرزمین پر اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ان کی یہ سب حرکتیں واقعی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا سبب بن سکتی ہے اور یہ تصادم انسانی زندگی اور تہذیب کیلئے تباہ کن ہوگا۔ کیا وہ اتنی سی بات نہیں سمجھتے؟‘‘
 خیال رہے کہ ۷ ؍ سے ۱۵؍ مارچ کے دوران ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل جس میں پوتن کاچھ سالہ مدت کیلئے دوبارہ منتخب ہونا یقینی ہے، پوتن نے اس بات کی تعریف کی کہ روس کا جدید ترین جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ دنیا کا وسیع ترین جوہری ذخیرہ ہے۔ 
انہوں نے کہاکہ جوہری حکمت عملی مکمل طور پر تیاری کی حالت میں ہے۔ یاد رہے کہ جوہری ہتھیاروں کے متعلق انہوں نے ۲۰۱۸ء میں بھی بتایا تھا۔ 
بظاہر ناراض، پوتن نے مغربی سیاستدانوں کو مشورہ دیا کہ ’’وہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر اور فرانس کے نپولین بوناپارٹ جیسے لوگوں کے انجام سے سبق حاصل کریں جنہوں نے ماضی میں روس پر ناکام حملہ کیا تھا لیکن آج اس غلطی کے نتائج کہیں زیادہ المناک ہوں گے۔‘‘
پوتن نے مغربی سیاستدانوں پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ’’وہ سمجھتے ہیں کہ یہ (جنگ) ایک کٹھ پتلی کا ناچ ہے، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ حقیقی جنگ کا کیا مطلب ہے کیونکہ انہیں گزشتہ تین دہائیوں میں روسیوں کی طرح حفاظتی آزمائش کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ‘‘
پوتن نے مزید کہا کہ ’’روسی افواج کو اب یوکرین کے میدان جنگ میں سبقت حاصل ہے اور وہ کئی جگہوں پر پیش قدمی کر رہے ہیں۔ فن لینڈ اور سویڈن کی جانب سے ناٹو فوجی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد روس کو ان فوجیوں کی تعداد میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا جو اس نے یورپی یونین کے ساتھ اپنی مغربی سرحدوں پر تعینات کئے ہیں۔ ‘‘
کریملن کے تجربہ کار لیڈر نے مغربی اندیشوں کو مسترد کر دیا کہ روسی افواج یوکرین سے آگے جا کریورپی ممالک پر بھی حملہ کر سکتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماسکو سوویت یونین جیسی غلطی نہیں دہرائے گا اور مغرب کو اسے ہتھیاروں کی دوڑ میں گھسیٹنے کی اجازت نہیں دے گا جو اس کے بجٹ کا بیشترحصہ کھا جائے گی۔ 
پوتن نے کہا کہ ماسکو، امریکہ کے ساتھ جوہری حکمت عملی کے استحکام پر بات چیت کیلئے تیار ہے لیکن ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا کہ واشنگٹن کو اس طرح کے مذاکرات میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں ہے اور وہ ماسکو کے مبینہ مقاصد کے بارے میں جھوٹے دعوے کرنے پر زیادہ توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ 
 انہوں نے کہا ’’حال ہی میں روس کے خلاف کئی دفعہ غیر مصدقہ الزامات لگائے گئے ہیں، مثلاً ہم مبینہ طور پر خلا میں جوہری ہتھیاروں کو تعینات کرنے جا رہے ہیں۔ اس طرح کے بے بنیادالزامات ہمیں ان کی شرائط پر مذاکرات کی طرف راغب کرنے کی محض ایک چال ہے، جو صرف امریکہ کے مفاد میں ہوں۔ ‘‘
 امریکہ کے دہرے رویہ پر طنز کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ ’’امریکہ اپنے صدارتی انتخابات کے موقع پرفقط اپنے شہریوں اور باقی سب کو دکھانا چاہتاہے کہ وہ اب بھی دنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK