یورپی یونین کی اہم تجویز، تجارت سے متعلق کئی معاہدوں کی معطلی زیر غور، تل ابیب کے ۲؍ شدت پسند وزراء پربھی پابندی لگ سکتی ہے
EPAPER
Updated: September 17, 2025, 10:51 PM IST | Brussels
یورپی یونین کی اہم تجویز، تجارت سے متعلق کئی معاہدوں کی معطلی زیر غور، تل ابیب کے ۲؍ شدت پسند وزراء پربھی پابندی لگ سکتی ہے
غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی پاداش میں یورپی یونین کی کلیدی ایگزیکٹیو باڈی نے اسرائیل پر تجارتی پابندیوں کی تجویز پیش کی ہے۔ غزہ جنگ کی وجہ سے اسرائیل دنیا بھر میں الگ تھلگ پڑنے لگا ہے۔ اس کا اعتراف خود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے منگل کو کیاہے۔ منگل کو ہی یورپی یونین نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدھ کو اسرائیل پر نئی پابندیوں کی تجویز پیش کرے گی۔ یورپی یونین کے اعلان پر اسرائیلی تاجروں نےتشویش کااظہار کیا ہے ۔
تجارت محدود ،۲؍ وزیروں پر پابندی
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کارلا کلاس نے غزہ جنگ جاری رکھنے پر اسرائیل کے خلاف جن کارروائیوں کی تجویز پیش کی ہےان میں یورپی یونین اور تل ابیب کے درمیان ’’اسوسی ایشن ایگریمنٹ‘‘ کے کئی التزامات کوجو تجارت سے متعلق اسرائیل کو خصوصی مراعات دینے کے حوالے سے ہیں،معطل کرنے کی تجویز شامل ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیل کے ۲؍ سخت گیروزراء ، وزیر برائے قومی سلامتی ایتمار بن گویر اور وزیر مالیات بیزالیل اسموٹرک پر نیز مغربی کنارہ پر آباد ہونے والے تشدد پر آمادہ یہودی باشندوں پر پابندی عائد کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔کارلا کلاس نے یورپی یونین کے رکن ممالک سے تجویز کی حمایت اور اسرائیلی مصنوعات پر ٹیرف بڑھانے کی بھی اپیل کی ہے ۔
پابندیوں کا مقصد غزہ میں بہتری لانا
یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ ’’یہ تجاویز اسرائیل کی جانب سے تجارتی معاہدے کے آرٹیکل۲؍کی تعمیل کے جائزے کے بعد پیش کی گئی ہیں۔ جائزہ میں پایا گیا کہ اسرائیلی اقدامات انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام سے متعلق معاہدہ کے بنیادی عناصر کی خلاف ورزی ہیں۔ اس خلاف ورزی کی وجہ سے یورپی یونین کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ معاہدہ کو یکطرفہ طور پر معطل کر دے۔‘‘
کارلا کلاس نے کہاکہ ’’مجوزہ پابندیوں کا مقصد غزہ جنگ سے تباہ شدہ علاقے میں انسانی بحران کو کم کرنا اور صورتحال میں بہتری لانا ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہاکہ ’’اس جنگ کو ختم ہونا چاہئے۔ انسانوں کے مصائب ختم ہونے چاہئیں اور تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جانا چاہئے۔‘‘ یورپی یونین کے تجارتی کمشنر ماروس سیفکووچ نے کہا ہے کہ ’’یونین کو یہ قدم اٹھانے کا افسوس ہے لیکن غزہ میں جاری انسانی بحران کے پیشِ نظر یہ اقدام ’ ضروری اورمناسب ‘ ہے۔‘‘یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا فان ڈیر لاین نے کہا ہے کہ ’’غزہ میں روزانہ پیش آنے والے ہولناک واقعات رُکنے چاہئیں۔ فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے، تمام انسانی امداد کی بلا روک ٹوک رسائی ہونی چاہئے۔‘ ‘ انہوں نے کہا کہ ’’اپنے اصولوں اور عہد کی پاسداری کے تحت اور مغربی کنارہ میں حالیہ سنگین واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہم اسرائیل کے ساتھ تجارتی رعایتوں کی معطلی، انتہا پسند وزیروں اور تشدد پر آمادہ یہودی آبادکاروں پر پابندی لگانے اور اسرائیل کے ساتھ دو طرفہ تعاون کو روکنے کی تجویز پیش کرتے ہیں۔‘‘
ہزاروں اسرائیلی آزاد فلسطین کے حامی
اہم بات یہ ہے کہ آزادریاست فلسطین کی حمایت میں خود اسرائیل میں بھی آواز اٹھنے لگی ہے۔ ۷؍ ہزار ۵۰۰؍ اسرائیلی شہریوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کئے ہیں جس میں آزاد فلسطین کے قیام اور تباہ کن غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ پٹیشن ’’زیزم‘‘ نامی ایک یہودی-عرب عوامی تحریک نے شروع کی ہے۔ اس کاکہنا ہے کہ یہ اقدام نیویارک میں اگلے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل بین الاقوامی برادری کو اسرائیلی عوام کا ’’واضح اور متحدہ پیغام‘‘ دینے کی کوشش ہے۔ منتظمین کےمطابق انہیں امید ہے کہ پیر کو اجلاس شروع ہونے سے پہلے پٹیشن کی تائید اور اس پر دستخط کرنے والوں کی تعداد۱۰؍ہزار سے تجاوز کر جائے گی۔پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ ’’فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا اسرائیل کو سزا دینے کے مترادف نہیں ہے بلکہ ایک بہتر مستقبل کی طرف قدم ہے جو ایک دوسرے کو تسلیم کرنے سے دونوں ملکوں کیلئے سلامتی پر مبنی ہو گا۔‘‘