اتوار کو گلاسگو، اسکاٹ لینڈ میں واقع بی بی سی کے ہیڈ کوارٹرس پر فلسطین حامی افراد نے احتجاج کیا کہ بی بی سی نے اپنی سروس سے ’’غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو اے وار زون‘‘ نامی دستاویزی فلم ہٹا دی ہے۔
EPAPER
Updated: March 04, 2025, 8:49 PM IST | Glasgow
اتوار کو گلاسگو، اسکاٹ لینڈ میں واقع بی بی سی کے ہیڈ کوارٹرس پر فلسطین حامی افراد نے احتجاج کیا کہ بی بی سی نے اپنی سروس سے ’’غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو اے وار زون‘‘ نامی دستاویزی فلم ہٹا دی ہے۔
فلسطین حامی کارکنوں نے بی بی سی پر تنقید کی ہے کہ اس نے غزہ پٹی پر اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم اس کی اسٹریمنگ سروس سے نکال دی ہے۔ یہ جاننے کے بعد فلسطین حامی غزہ نسل کشی ایمرجنسی کمیٹی کے کارکن اتوار کو پرچم اٹھائے گلاسگو میں بی بی سی اسکاٹ لینڈ کے ہیڈکوارٹرس کے باہر جمع ہوئے اور ’’بی بی سی کا بائیکاٹ کریں‘‘ اور ’’لائسنس کی فیس ادا نہ کریں‘‘ جیسے نعرے لگائے۔ انہوں نے بی بی سی کے آئی پلیئر سے دستاویزی فلم، جس کا عنوان ’’غزہ: ہاؤ ٹو سروائیو اے وار زون‘‘ کو ہٹانے کے ’’شرمناک‘‘ فیصلے کی مذمت کی اور اسے گلاسگو میں کارپوریشن کی عمارت پر پروجیکٹر کی مدد سے نشر کیا گیا۔ یہ فلم، جسے آزاد کمپنی ہویو فلمز نے تیار کیا تھا ۱۶؍ فروری کو بی بی سی ٹو پر نشر کی گئی تھی۔ تاہم، پانچ دن بعد، غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی نسل کشی کی وکالت کرنے والوں کی شکایات کے بعد اسے ہٹا دیا گیا۔
Shamefully, the BBC pulled its showing of How To Survive a Warzone.
— GGEC (@ggectee) March 2, 2025
Tonight, at BBC Scotland, we’re showing it right back to them.
For the children of Gaza.🇵🇸 pic.twitter.com/98VKUeDTRL
اسرائیل حامی کارکنوں نے بی بی سی پر اس وقت دباؤ ڈالا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ فلم کا ۱۳؍ سالہ انگریزی بولنے والا راوی عبداللہ غزہ کے نائب وزیر برائے زراعت ایمن الیزوری کا بیٹا ہے۔ دستاویزی فلم کے آغاز میں، عبداللہ ناظرین سے پوچھتا ہے، ’’کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر آپ کی دنیا تباہ ہو جائے تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ اس ضمن میں بی بی سی کو ایک کھلے خط میں، سیکڑوں ٹی وی اور فلمی فنکاروں کے ساتھ صحافیوں نے پروگرام کو ہٹانے کے براڈکاسٹر کے فیصلے کو ’’سیاسی طور پر محرک سنسرشپ‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے راوی کے پس منظر کے حوالے سے ’’نسل پرستانہ مفروضوں اور شناخت کو ہتھیار بنانے‘‘ کی بھی مذمت کی۔