Updated: December 13, 2025, 10:18 PM IST
| Gaza
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اہم حامی ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات ادا کرنے چاہئیں، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ نہ صرف اسرائیل بلکہ نسل کشی میں مدد فراہم کرنے والے تمام ممالک پر پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔
اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز۔ تصویر: ایکس
مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز نے جمعے کو کہا کہ اسرائیل کو امریکہ اور دیگر اہم اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات برداشت کرنے چاہئیں۔مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر لندن میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، فرانسسکا البانیز نے زور دیا کہ غزہ میں نسل کشی میں معاونت کے حوالے سے مکمل تشخیص ہونی چاہیے، اور اس بات پر زور دیا کہ نہ صرف اسرائیل بلکہ نسل کشی میں مدد فراہم کرنے والے تمام ممالک پر پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں طوفانی بارش سے بھاری تباہی
البانیز نے کہا،’’ ان ممالک کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے چاہئیں، ایک ایسی ریاست کی مدد و اعانت بند کر دینی چاہیے جو غیر قانونی قبضہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔‘‘ ذمہ داری کے بارے میں بات کرتے ہوئے، خصوصی نمائندہ نے کہا کہ اسرائیل کو امریکہ، جرمنی اور اٹلی کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کے اخراجات ادا کرنے چاہئیں، جو کہ اہم اسلحہ فراہم کنندہ ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ کی معاونت کے بارے میں تحقیق ہونی چاہیے، جسے انہوں نے قبرص کے اڈوں سے فراہم کی جانے والی خدمات کے ذریعے اس نسل کشی میں معاونت قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا، ’’اگر اسرائیل نوآبادیاتی طرز عمل کے الزام سے بچنا چاہتا ہے، تو اسے نوآبادیاتی طاقت، نوآبادیاتی وجود کی طرح زمین پر قبضہ کرنے، لوگوں کو بے گھر کرنے کا عمل نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: فریڈم فلوٹیلا کولیشن کا ڈبلن میں اجلاس،غزہ کوچ واسرائیل کے خلاف کارروائی کی اپیل
دریں اثناء اپنے خلاف امریکی پابندیوں کا ذکر کرتے ہوئے، البانیز نے کہا کہ ان پابندیوں کی وجہ سے انہیں خود، بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے ججوں، یا فلسطینی انسانی حقوق گروپوں کو ’’مجرم کی طرح سمجھا جاتا ہے۔‘‘انہوں نے کہا، ’’پابندیاں اٹھانے کے لیے اس کے خلاف نہ تو کافی مضبوط ردعمل ہوا ہے، اور نہ ہی کافی مضبوط ردعمل سامنے آیا ہے۔‘‘ انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ چونکہ ان پر امریکہ کا سفر ممنوع ہے، وہ اپنی رپورٹ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش نہیں کر سکتیں، ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ وہ بینک اکاؤنٹ بھی نہیں کھول سکتیں۔
واضح رہے کہ اگست میں، اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ البانیز پر امریکی پابندیاں انسانی حقوق کے نظام کے لیے خطرہ ہیں۔ اس سے ایک ماہ قبل امریکہ نے اعلان کیا تھا کہ اس نے امریکی اور اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف آئی سی سی کی کارروائی کو ابھارنے کی کوششوں کی پاداش میں فرانسسکا پر پابندیاں عائد کی ہیں۔بعد ازاں اگست میں، امریکہ نے چار آئی سی سی اہلکاروں پر بھی پابندیاں عائد کی تھیں، جنہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کےخلاف وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے، جن کے خلاف غزہ پٹی میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں دو سالہ جارحیت کے بعد، امریکہ نے اسرائیل سے ملبہ صاف کرنے کو کہا: رپورٹ
واضح رہے کہ سیول ڈیفنس کے مطابق، اس وقت تقریباًدو لاکھ ۵۰؍ ہزاربے گھر خاندان غزہ پٹی میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جن میں وہ سرد موسم اور سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں۔اگرچہ۱۰؍ اکتوبر سے جنگ بندی نافذ العمل ہے، تاہم غزہ میں رہنے کے حالات میں بہتری نہیں آئی ہے، کیونکہ اسرائیل امدادی ٹرکوں کے داخلے پر سخت پابندیاں عائد کرتا رہا ہے، جو معاہدے کےپروٹوکول کی خلاف ورزی ہے۔
خیال رہے کہ اسرائیل نے اکتوبر۲۰۲۳ء کے بعد سے غزہ پر حملوں میں ۷۰؍ ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک اورایک لاکھ ۷۱؍ ہزار سے زیادہ افراد کو زخمی کیا ہے، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔تاہم یہ حملے جنگ بندی کے باوجود جاری ہیں۔