Inquilab Logo

شیو سینا تنازع : سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے گورنر کے رول پر کئی سوال اُٹھائے

Updated: March 16, 2023, 10:54 AM IST | new Delhi

چیف جسٹس نے پوچھا کہ برسراقتدار پارٹی کے اراکین میں اختلاف فلور ٹیسٹ کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے ؟ شندے حکومت کے قیام میں بھی گورنر کے رول پر سخت تبصرہ

Uddhav Thackeray and Eknath Shinde
ادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے

شیو سینا کے تنازع پر سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں جاری سماعت میں بدھ کو چیف جسٹس چندر چڈ نے گورنر کے رول پر کافی سخت سوالات کئے۔ انہوںنے گورنر کی جانب سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا پرسوالوں کی بوچھار کردی۔ چیف جسٹس نے مہاراشٹر کے گورنر سے کہا کہ انہیں فلور ٹیسٹ اس طرح نہیں کرانا چاہئے تھا۔ انہوں نے پوچھاکہ گورنر نے آخر کس بنیاد پر اندازہ لگایا کہ آگے کیا ہونے والا ہے؟ سی جے آئی نے مزید پوچھا کہ کیا فلور ٹیسٹ کرانے کے  لئےجواز موجود تھا ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ شیو سینا کے اندرونی اختلافات کی بنیاد پر گورنر نے کیسے اندازہ لگایا کہ آگے کیا ہوگا اور انہوں نے فلور ٹیسٹ ہی کیوں کروایا؟ ایک  طرف پارٹی کے اندر عدم اطمینان اور دوسرا ایوان کے فلور پر اعتماد کا فقدان، یہ ایک دوسرے کی بالکل الٹ باتیں ہیں ۔ گورنر کو کس چیز نے یقین دلایا کہ حکومت ایوان کا اعتماد کھو چکی ہے؟گورنر کو ابتدائی طور پر ان تمام ۳۴؍اراکین اسمبلی کو شیو سینا کا حصہ ماننا چاہئےتھا۔
 سپریم کورٹ نے کہا کہ پارٹی کے اندرونی اختلافات فلور ٹیسٹ کروانے کی بنیاد نہیں ہو سکتے۔ پارٹی کے نئے سیاسی رہنما کے انتخاب کے  لئے فلور ٹیسٹ نہیں کرایا جا سکتا۔ پارٹی کا سربراہ کوئی بھی بن سکتا ہے اورجب تک اتحاد  برقرار ہے گورنر کا وہاں کوئی کام نہیں ہے۔ یہ سب پارٹی کے اندرونی نظم و ضبط کے معاملات ہیں۔ اس میں گورنر کی مداخلت کی ضرورت نہیں تھی ۔
 گورنر کی جانب سے پیش ہونے والے ایس جی تشار مہتا نے کہا کہ ۴۷؍اراکین نے گورنرکو خط لکھا تھا۔ ان میں دیگر پارٹیوں کے دو ایم ایل اے بھی شامل تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں پارٹی پر اعتماد نہیں ہے۔ ایسے میں کیا گورنر کے  لئے یہ رائے قائم کرنا مناسب نہیں ہوگا کہ حکومت دراصل اپنی اکثریت کھو چکی ہے۔ اگر وہ فلور ٹیسٹ نہیں کرا سکتے تو وہ کس بنیاد پر فیصلہ کریں گے۔ ایسے میں گورنر خاموش تماشائی نہیں رہ سکتے۔ ایسی صورتحال میں فلور ٹیسٹ طلب کرنا گورنر کی آئینی ذمہ داری ہے۔ اس جواز  پر چیف جسٹس نے مزید برہم لہجے میں کہا کہ ۳؍ سال تک تو یہ۳۴؍ اراکین حکومت میں شامل رہے ، وزیر بھی بنے رہے یعنی ’ ہیپی میریج‘ میں رہے لیکن ایک دن اچانک کہتے ہیں کہ انہیں حکومت پر اعتماد نہیں ہے یعنی یہ ’طلاق ‘ مانگ رہے ہیں۔  یہ کیسے ممکن ہے۔ اگر حکومت قائم ہوئے ایک ماہ ہوا ہوتا اور یہ تمام  بی جے پی کا دامن تھام لیتے تو اس کا جواز ہوسکتا تھا لیکن ۳؍ سال بعد یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو اس معاملے  کے ساتھ ساتھ ایسے تمام معاملات میں بہت محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے کیوں کہ ان کے ایک فیصلے سے منتخب حکومت گرسکتی ہے اور یہ ہماری جمہوریت کے لئے بہت برا دن ثابت ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اس دوران کپل سبل اور مہیش جیٹھ ملانی کے دلائل کو بھی غور سے سنا اور اس کے بعد یہ سوالات قائم کئے جو انہوں نے تشار مہتا سے پوچھے۔ تشار مہتا کے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں تھے لیکن انہوں نے تب بھی بات بنانے کی کوشش کی اس کے جواب میں کچھ دلائل دئیے مگر عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ معاملے کی سماعت  جمعرات کو بھی جاری رہنے کی توقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK