Inquilab Logo

بڑے کےگوشت کی قلت ،مرغی اور بکرے کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ

Updated: September 12, 2022, 11:33 AM IST | Kazim Shaikh | Mumbai

دیونارمذبح میں بڑے جانوروں پرپابندی لگنے سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا،گوشت کے تاجربھی فکرمند ، لمپی وائرس کے بہانے کاروبارکو بندکروانے کی سازش قرار دیا

Deonar Slaughterhouse where the cause of lymphovirus a ban has been imposed on the slaughter of large animals.Picture:INN
دیونارسلاٹرہاؤس جہاں لمپی وائرس کی وجہ سے بڑے جانوروں کے ذبیحہ پرپابندی عائد کردی گئی ہے ۔ تصویر:آئی این این

 دیونار  مذبح میں بڑے جانورلانے اور ان کے ذبیحہ پر ریاستی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کردی گئی ہے جس کی وجہ سےنہ صرف بھینس اور پاڑے  بلکہ بکرے اور مرغی کے گوشت کے داموں  میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے جس سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ایسا کہا جارہا ہے کہ اگر یہ پابندی زیادہ دنوں تک جاری رہی تو مچھلی ،  انڈے اورسبزیاں بھی مہنگی ہوجائیں گی۔ واضح رہے کہ دیونار مذبح میں اتوار کو ۳۵۱؍ بڑے جانورذبح کئے گئے جبکہ اب وہاں صرف ۵۰؍ جانور ہی موجود ہیں ۔ 
’’دیونارمذبح سے گوشت ملنا مشکل ہوجائے گا‘‘
 گھاٹ کوپر کے آزاد نگر میں   بڑے جانوروں کا گوشت فروخت کرنے والے تاجروصی اللہ قریشی نے کہا کہ’’ دیونار میں بڑے جانور لانے پر پابندی سے  اب دیونار سے گوشت ملنا مشکل ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کے متعدد علاقوںمیں گوشت مہنگے داموں  فروخت ہورہا ہے ۔اس لئے دکانداروں نے بڑے کے گوشت کی قیمتوں میں   اضافہ کردیا  ہے۔‘‘ گوونڈی میں گوشت کے تاجر منا قریشی کا کہنا ہے کہ ’’دیونار میں جو بچے ہوئے بڑے جانور  ہیں ، ان کے ذبیحہ کا گوشت اتوارکو معمول  سے کم تعداد میں ملا  اور یہ بھی کہا  جارہا ہے کہ اب دیونار میں  جانور نہیں ہیں اس لئے گوشت یہاں سے ملنا اس وقت تک مشکل ہوجائے گا جب تک جانور لانے کی اجازت نہ دے دی جائے گی ۔ ‘‘  ساکی ناکہ میں مٹن فروخت کرنے والے کلو قصائی کا کہنا ہے کہ ’’بڑے کا گوشت نہ ملنے سے بکرے کا گوشت  ۷۰۰؍ روپے سے بڑھ کر  ۷۸۰؍ روپے ہوگیا ہے اور  مرغی کے گوشت کی قیمت اتوارکو ۲۴۰؍ روپے ہوگئی ہے جبکہ  ۲؍ دن پہلے یہ ۱۸۰؍ روپے میں فروخت ہورہا تھا ۔‘‘ کلوقصائی کے مطابق ’’ بڑے کے گوشت کی قلت کا اثر انڈے اور سبزیوں پر بھی پڑے گا اور ان کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی ۔‘‘ بڑے کے گوشت کے تاجر اسلم قریشی نے کہا کہ ’’لمپی نامی وائرس جانوروں میں ہمیشہ پایا جاتا ہے ۔ کبھی کبھی وہ جانوروں میں اوپر سے بھی ظاہر ہونے لگتا ہے۔اس کے علاوہ گوشت کو ہم لوگ جس طرح پکاتے ہیں ، اس میں جانوروں میں پائے جانے والے جراثیم صدفیصد ختم ہوجاتے ہیں ۔‘‘ انھوں نےالزام لگایا کہ مسلمانوں کے ذریعہ جو بھی کاروبار کئے جاتے ہیں، انہیں کسی نہ کسی بہانے   بندیا کمزور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ لمپی وائرس جانوروں کیلئے کوئی نیا نہیں ہے ۔ بعض اوقات جانور ذبح کرنے کے بعد اس بیماری کا پتہ چلتا ہے۔ 
 آل انڈیا جمعیت القریش کے نیشنل سیکریٹری اور کور کمیٹی کے ممبر انیس قریشی نے کہا کہ ’ ’ممبئی میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں بڑے کے گوشت پر لگنے والی پابندی سے بکرے  اور مرغی کے گوشت کے علاوہ مچھلی اور انڈے کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا ۔ آج سےبڑے کےگوشت کے تاجروں کے علاوہ بکروںکا گوشت فروخت کرنے والے دکانداروں  اور روز مرہ  ان چیزوں کا استعمال کرنے والے شہریوں کی جانب سے بھی شکایت مل  رہی ہے کہ ان چیزوں کے دام بڑے کے گوشت کی قلت کے پیش نظر بڑھا دیئے گئے ہیں ۔ ‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’حکومت کی نیت اس معاملے میں ٹھیک نہیں لگ رہی ہے کیونکہ دیونار سلاٹر ہاؤس میں بھینس اور پاڑے ذبح کرکے گوشت ممبئی اور آس پاس کے علاقے میں  فروخت  کیا جاتا ہے ۔ ان جانوروں کو  ذبح کرنے سے پہلے ڈاکٹروں کے ذریعہ طبی  جانچ کی جاتی ہے۔ دیونار کے دھکے پرمیونسپل کارپوریشن کےماہر ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں ۔ اگر جانوروں میں کوئی بیماری یا خرابی پائی جاتی ہے تو اسے دیونار سلاٹر ہاؤس میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی  ہے ۔ ‘‘ انیس قریشی کے مطابق’’ اس کاروبار کے بند ہونے سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ پورے ملک کا  بڑے پیمانے پر نقصان ہوگا کیونکہ اس کاروبار سے لاکھوں افرادجڑے ہوئے ہیں ۔ دیہات اور گاؤں میں چھوٹے چھوٹے کسان  اپنی کھیتی باڑی کے ساتھ  مویشی پالن بھی کرتے ہیں ۔ اس کاروبار سے الگ الگ قوم اور برادری کے لوگ  جڑے ہوئےہیں ، ان سب کا نقصان ہوسکتا ہے ۔ بڑے کا گوشت بڑے پیمانے پر ایکسپورٹ کیا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ سے بیرون ملک کی کرنسی اور کاروبار کے ذریعہ ملک کی جی ڈی پی بڑھتی ہے ۔ اس کے علاوہ بڑے  جانوروں کے ذبیحہ کے بعد اس سے نکلنے والی چیزیں دیگر کاروبار میں  بڑے پیمانے پر استعمال کی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کہ شکر بنانے کے دوران جانوروں کی ہڈیوں کا استعمال ہوتا ہے ۔ انسانوں کو بڑے جانوروں کے گوشت سے جو غذائیت ملتی ہے،وہ دیگر چیزوں سے نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ مزدور اور محنت کش افراد اس کا استعمال بڑے پیمانے پر کرتے ہیں ۔   ‘‘
 آل انڈیا جمعیت القریش کے نائب صدر عمران بابو قریشی کا کہنا کہ’’ اگربھینس کا گوشت کھانے سے بیماری کا خدشہ ہے تو سب سے پہلے گائے اور بھینس کے دودھ پر پابندی لگنی چاہئے کیوں کہ اس کا دودھ معصوم بچے  اور بڑے دونوں استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ بیماری سے زیادہ نقصانات کا اندیشہ ہے ۔ اس بیماری کے باوجود   دودھ کا کاروبار اور گوشت کا ایکسپورٹ  بڑے پیمانے پرجاری ہے ۔ ‘‘
حکومت کے دوسرے سرکیولرتک ذبیحہ بند رہے گا
 دیونار مذبح کے جنرل منیجر ڈاکٹر کلیم پٹھان کے مطابق ’’اتوار کو سلاٹرہاؤس میں ۳۵۱؍ بھینس اور پاڑے ذبح کئے گئے اور تقریباً ۵۰؍ جانور ذبیحہ کے لئے موجود ہیں۔ ان کے ذبیحہ کے بعد جب تک حکومت کی جانب سے اس تعلق سے دوسرا سرکیولرنہیں آجائے گا ، اس وقت تک بڑے جانور ذبح نہیں کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘ 

deonar Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK