Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’میں اپنےایک بیٹے کے بچنے کی خوشی مناؤں یا دوسرے کی موت کا غم؟ ‘‘

Updated: June 15, 2025, 9:37 AM IST | Ahmedabad

طیارہ حادثہ میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار کے والد رمیش بھلائیا کہتے ہیں کہ ایسا وقت خدا کسی پر نہ لائے کہ جس کا ایک بیٹا تو بچ جائے لیکن دوسرا بیٹا اسی حادثے میں ہلاک ہو جائے

Vishwas Kumar Ramesh Bhilaiya, who survived the accident
حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار رمیش بھلائیا

’’خدا نے ایک بیٹا چھین لیا، اور دوسرا بچ گیا‘‘... جمعرات کی سہ پہر برطانیہ میں لیسٹر کے رہائشی رمیش بھلائیا کیلئے ایک ایسی خبر لائی  جسے قبول کرناوالدین کیلئے کوہ گراں اٹھانے کے برابر ہوتا ہے۔۵۲؍ سالہ رمیش بھلائیا کو معلوم ہوا کہ لندن جانے والا ایئر انڈیا کا طیارہ جس میں ان کے دوبیٹے وشواش کمار اور اجےسوار تھے، احمد آباد میں ٹیک آف کے چند سیکنڈ بعد ہی گر کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے جو ویڈیو سامنے آئے ان میں کسی مسافر کے زندہ بچنے کی امید کم ہی تھی ۔ ابتدائی رپورٹس، جن میں غیر یقینی صورتحال اور قیاس آرائیاں تھیں  ان سےصرف پریشانی میں اضافہ  ہوا۔ بھلائیا نے سوچا کہ ان کا بدترین خوف سچ ہو گیا ہے  لیکن ،پھر انہوں نے ایک ویڈیو کال کیا۔  ان کی سب بڑے بیٹے وشواس سے بات ہوئی ۔ اس نے مجھے بتایا کہ فلائٹ کریش ہو گئی تھی  اور اجے کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ ہر طرف دھواں تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کسی طرح وہ کریش ہونے والی فلائٹ کے ڈھانچے سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ پھر فون منقطع ہو گیا..‘‘  یہ باتیں رمیش بھلائیانے انڈین ایکسپریس کو فون پر گفتگو کے دوران بتائیں۔
 جیسے جیسے دن چڑھتا گیا، اور یہ واضح ہو گیا کہ اجے کے زندہ رہنے کے امکانات کم تھے، خاندان پر اداسی چھا گئی۔انہوں نے مزید بتایا ’’ہمارا پورا خاندان حیران رہ گیا۔ اجے کی بیوی اور بچے رونے لگے۔ میں بھی تباہ ہو گیا تھا لیکن خاندان کے ایک بڑے فرد کی حیثیت سے مجھے اپنے جذبات پر قابو پانا پڑا اور انہیں تسلی دینی پڑی۔ بعد میں دوپہر کو میں نے پھر وشواس کو فون کیا جس نے مجھے بتایا کہ وہ معمولی زخموں کے ساتھ اسپتال میں  زیر علاج ہے، پھر اس نے ہمیں اجے کی موت کی خبر دی۔میں اپنےایک بیٹے کے بچنے کی خوشی مناؤںیا دوسرے کی موت کا غم ۔‘‘
 بھلائیا برادری دادرا اور نگر حویلی اور دمن اور دیو میں دیو شہر کے پٹیل واڑی گاؤں میں ماہی گیروں کا ایک خاندان ہے ۔ بھلائیا اور ان کی اہلیہ پرتگالی پاسپورٹ ہولڈر ہیں جو تقریباً۲۰؍ سال قبل لندن چلے گئے تھے۔ احمد آباد سول اسپتال میں وشواس کی دیکھ بھال کرنے والے بھلائیا کے بھتیجے جگر چونی لال کہتے ہیں’’۱۰؍ سال کے بعد انہیں برطانوی شہریت ملی تھی۔‘‘ہر سال کی طرح، بھلائیا پچھلے سال ستمبر میں ماہی گیری کے موسم میں دیو  آئےتھے جبکہ باقی خاندان جنوری میں واپس انگلینڈ چلا گیا ۔ وشواس اور اجے کچھ کام سمیٹنے کے لئے ٹھہر گئے تھے ۔
 مختلف گارمنٹس فرموں میں کام کرتے ہیں
 بھلائیا بتاتے ہیں کہ’’ ۱۲؍ جون کا بد قسمت دن خاندان کیلئے معمول کے مطابق شروع ہوا۔ میں وشواس سے رابطے میں تھا جس نے ہمیں بتایا کہ فلائٹ رن وے سے ٹیک آف کر چکی ہے لیکن چند منٹوں کے بعد، مجھے ایک اور کال  آیا...‘‘دوردرشن کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں، جمعہ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات کےبعد۳۹؍ سالہ وشواس کہتے ہیں کہ وہ جہاز سے نکلنے میںکامیاب رہے کیونکہ ان کی کھڑکی کی طرف کادروازہ ٹوٹ گیا تھا اور باہر نکلنے کیلئے کچھ جگہ تھی۔‘‘وشواس نے مزید بتایا’’ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا، میں یقین نہیں کر پا رہا ہوں کہ میں زندہ سے کیسے نکل آیا۔ ایک مختصر لمحے کے  لئے میں نے سوچا کہ میں مرنے جا رہا ہوں، لیکن جب میں نے آنکھیں کھولیں تو مجھے احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں، میں نے اپنا سیٹ بیلٹ کھولا اور جہاں سے ہو سکا وہاں سے نکل گیا۔‘‘وشواس یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ’ایک دوسرے مسافر  اور  ایئر ہوسٹس کو  اپنے سامنے دم توڑتے ہوئے دیکھا۔وشواش سیٹ ۱۱؍ اےپر تھے جبکہ اجے۱۱؍ جے پر تھے ۔
’ایسا لگا جیسے ہوائی جہاز پھنس گیا ہو‘
 واقعات کی ترتیب کو بیان کرتے ہوئے وشواس نے ڈی ڈی کو بتایا’’ٹیک آف کے بعد اچانک۱۰-۵؍ سیکنڈ کے لیے ایسا لگا جیسے ہوائی جہاز پھنس گیا ہو، پھر، ہوائی جہاز کے اندر سبز اور سفید رنگ کی روشنیاں آگئیں، پھر ٹیک آف کیلئے رفتار بڑھاتے ہوئے، وہ عمارت سے ٹکرا گیا۔ میری طرف، جہاں دروازہ ٹوٹ گیاتھا ،وہاں کچھ جگہ تھی جہاں سے میں باہر نکلنے میں کامیاب رہا دوسری طرف کے دروازےکے باہر شاید بلڈنگ کی دیوار تھی اس لئے لوگ باہر نہیں نکل سکے۔مجھے نہیں معلوم کہ میں کیسے بچ گیا… ایک ایمبولینس مجھے یہاں اسپتال لے آئی۔‘‘وشواس کے۳۰؍ سالہ کزن جگرنے جو جمعرات کی رات احمد آباد پہنچے تھے، بتایا ’’اس کے  بائیں ہاتھ  پر جلنے کے زخم ہیں، اس کے چہرے پر سوجن ہے اور اس کے سر پر معمولی چوٹیں ہیں۔ ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا کہ اس کی حالت مستحکم ہے اور وہ جلد صحت یاب ہو جائے گا۔ خاندان کے دیو تعلق کے بارے میں بتاتے ہوئے جگر کہتے ہیں، ’’ان کے پاس دو کشتیاں ہیں اور وہ اپنے قیام کے دوران سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے بھی نکلتے ہیں۔ ماہی گیری کا سیزن تین ماہ تک جاری رہتا ہے جس کے بعد وہ لندن واپس آتے ہیں اور گارمنٹس فرم میں اپنی ملازمتیں جاری رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے گاؤں سے ایک ٹنڈیل (ماہی گیر) خاندان کی خدمات حاصل کی ہیں جو ان کی کشتی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK