Inquilab Logo

صدیق کپن کی ضمانت کا چہار سو خیر مقدم ، جلد رِہائی

Updated: September 11, 2022, 10:30 AM IST | new Delhi

سپریم کورٹ نےحکم دیا کہ انہیں ۳؍دن کے اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے اور رِہا کردیا جائے، یوپی پولیس کی تفتیش پر کئی سوال اٹھائے ، انصاف پسند حلقوں نے ستائش کی

The Supreme Court has given a big relief to journalist Siddiq Kapan by granting him bail
سپریم کورٹ نے صحافی صدیق کپن کو ضمانت دے کر انہیں بڑی راحت دی ہے

 کیرالا کے صحافی اور تقریباً ۲؍ سال سے جیل میں قید صدیق کپن کی درخواست ضمانت سپریم کورٹ سے منظور کر لی گئی ہے جس کا چہار سو خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔اس معاملے پر چیف جسٹس یو یو للت، جسٹس ایس رویندر بھٹ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ نے سماعت کی۔  بنچ نے ضمانت کا حکم جاری کرتے ہوئے صدیق کپن کو تین دن کے اندر ٹرائل کورٹ کے سامنے پیش کرنے اور رہا کرنے کا حکم سنایا۔  حالانکہ اس دوران یوپی حکومت کپن کی ضمانت کی یہ کہہ کر مخالفت کر رہی تھی کہ کپن کے پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) سے قریبی روابط ہیں، جس کا ایجنڈا ملک کے خلاف ہے لیکن کورٹ نے یہ دلیل منظور نہیں کی ۔ اس سے قبل عدالت نے ۲؍اگست کو وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا ۔
  کپن کی جانب سے جرح کرتے ہوئے کپل سبل نے کہا کہ پی ایف آئی کالعدم یا دہشت گرد تنظیم نہیں ہے اور اس سے تعلق ہونا                         غیر قانونی بھی نہیں ہے۔ جہاں تک بات ہے میرے موکل کی تو پی ایف آئی سے بھی ان کا کوئی تعلق جوڑا نہیں جاسکا ہے۔  وہ اکتوبر۲۰۲۰ء سے جیل میں قید ہیں جبکہ وہ ایک صحافی ہیں اور ہاتھرس کے  واقعے کاکوریج کرنے کے لئےجا رہے تھے۔ کپل سبل کے مطابق ان کے خلاف ۵؍ ہزار صفحات کی چارج شیٹ داخل کی گئی ہےلیکن اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ ان دلائل پر یوگی حکومت کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی  نے جواب دیا کہ صدیق کپن کو سازش رچنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ان پر اور دیگر الزامات بھی عائد کئے جاسکتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس یو یو للت نے کہا کہ کیا کسی واقعہ کا کوریج کرنے جانا جرم ہے ؟ اس پر مہیش جیٹھ ملانی نے کہا کہ صدیق کپن کے خلاف ہمارے پاس اس کے ساتھی ملزمین کا بیان بھی ہے۔ جس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ وہ بیان تو پولیس کو دیا گیا بیان ہے جس کی عدالت میں کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ بنچ نے پوچھا کہ کپن کے پاس سے  پولیس کو کیا ملا ہے ؟ اس پر جیٹھ ملانی نے کہا کہ اشتعال انگیز لٹریچر ہے۔ اس جواب پر چیف جسٹس یویو للت بالکل بھڑک اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ملزم کے پاس سے پولیس کو کوئی دھماکہ خیز مادہ نہیں ملا ہے  صرف لٹریچر برآمد ہوا ہے ، اس بنیاد پر ملزم کو ۲؍ سال سے کیسے قید رکھا جاسکتا ہے؟ اس درمیان کپل سبل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ جو لٹریچر ملا ہے وہ بھی اشتعال انگیز نہیں ہے بلکہ انصاف مانگنے کا                                                                    طریقہ بتاتا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے یوگی حکومت کے وکیل کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ آزاد ملک ہے اور اظہار رائے کی آزادی سبھی کو ہے اور پھر ملزم تو صحافی ہے ، اسے کس بنیاد پر گرفتار کیا گیا وہ بھی اب تک طے نہیں کیا جاسکا ہے۔
 جسٹس رویندر بھٹ نے بھی یوگی سرکار کے وکیل سے سوال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔انہوں نے پوچھا کہ چارج شیٹ میں جو الزامات عائد کئے گئے ہیں جس طرح کے مظاہروں کا دعویٰ کیا جارہا ہے وہ ۲۰۱۲ء میں نربھیا والے معاملے میں بھی ہو چکے ہیں۔ ان کی وجہ سے سرکار کو قانون میں ترمیم کرنی پڑی تھی ۔ تو کیا ایسا ہی اس لٹریچر میں بھی ہے ؟ اگر ایسا ہے تو یہ اشتعال انگیز کیسے ہو سکتا ہے ؟ اب تک ہمارے سامنے ایسا کوئی پرزہ  تک نہیں لایا گیا جو اشتعال انگیز ہو ۔چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ کیا ایسا کوئی ثبوت یا دستاویز ہے جس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ملزم فساد کروانا چاہتا تھا یا اس میں ملوث تھا ؟ اس کا جواب نفی میں ملنے پر چیف جسٹس نے فیصلہ لکھوانا شروع کردیا۔ انہوں نے احکام جاری کیا کہ صدیق کپن کو ۳؍ دن کے اندر اندر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے اور ٹرائل کورٹ ضمانت کی جو بھی شرائط طے کرے ان کی بنیاد پر اسے رہا کیا جائے۔ یہ کام جلد از جلد ہوجانا چاہئے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے چند دیگر شرائط بھی عائد کردیں ۔ 
 ادھر کورٹ کے حکم کے بعدیوپی انتظامیہ کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ صدیق کپن کی رہائی ایک ہفتے کے اندر اندر ہوسکے گی کیوں کہ اس سلسلے میں کافی کام باقی ہے۔ فی الحال اسے پیر کو ممکنہ طور پر ٹرائل کورٹ میں پیش کیا جائے گا اور وہاں سے شرائط طے ہونے کے بعد رہائی عمل میں آئے گی۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK